کیاآپ نے کبھی سوچا ہے کہ مشاہدہ (Observation) حقیقت کو تبدیل کر سکتا ہے؟کیا دیکھے جانے کی حقیقت اور نہ دیکھے جانے کی حقیقت مختلف ہو سکتی ہے؟ اگر ہاں، تو کیا کسی کی نگرانی انسان کی ذہنی، روحانی اور کیمیائی کیفیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
جی ہاں! جدید سائنس میں ڈبل سلٹ تجربہ (Double Slit Experiment) ایک حیران کن حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ جب ایک ذرہ (electron یا photon) کو دیکھا جاتا ہے تو وہ مختلف طرز پر برتاؤ کرتا ہے، جیسے کہ مشاہدہ اس کی حقیقت بدل دیتا ہو. یہ تجربہ کوانٹم مکینکس کی دنیا کا سب سے حیرت انگیز اور پراسرار تجربہ ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ "مشاہدہ" کسی چیز کی حقیقت کو بدل سکتا ہے! اس تجربے میں روشنی یا مادّے کے چھوٹے ذرّات (جیسے فوٹون یا الیکٹران) کو ایک اسکرین پر چھوڑا جاتا ہے، جس کے سامنے دو باریک درزیں (Slits) بنی ہوتی ہیں۔
١- اگر ذرّات صرف ایک درز سے گزرتے ہیں تو وہ سیدھی لکیر میں جا کر اسکرین پر ایک سیدھا نشان بناتے ہیں۔
٢- اگر ذرّات دونوں درزوں سے بیک وقت گزرتے ہیں تو وہ لہروں (Waves) کی طرح عمل کرتے ہیں اور ایک انٹرفیئرنس پیٹرن (Interference Pattern) بناتے ہیں، یعنی کئی روشن اور تاریک دھاریاں بنتی ہیں۔
جب کسی بھی ڈٹیکٹر سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ذرّہ کس درز سے گزر رہا ہے، تو یہ حیران کن نتیجہ سامنے آیا: جیسے ہی مشاہدہ کیا گیا، ذرّات نے "لہر" کی طرح برتاؤ چھوڑ دیا اور "ذرّہ" بن کر سیدھی لائن میں نشان بنائے! اگر کوئی مشاہدہ نہ کرے، تو ذرّات "لہر" کی طرح دونوں درزوں سے ایک ساتھ گزرتے ہیں اور انٹرفیئرنس پیٹرن بناتے ہیں۔ یہ مطلب ہوا کہ "محض دیکھنے" سے ذرّے کا رویہ بدل جاتا ہے!زبردست ! انسانی ذہن پر نگرانی (مانیٹرنگ) کے اثرات پر مختلف سائنسی تحقیقات کی گئی ہیں۔ یہ اثرات مثبت اور منفی دونوں ہو سکتے ہیں، جو نگرانی کی نوعیت، شدت، اور فرد کی ذاتی خصوصیات پر منحصر ہیں۔
1. ہاتھرون ایفیکٹ (Hawthorne Effect) یہ نفسیاتی اصول کہتا ہے کہ جب انسان کو معلوم ہو کہ اسے مانیٹر کیا جا رہا ہے، تو وہ اپنا رویہ بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ 1920 کی دہائی میں Hawthorne Works میں ہونے والے تجربات سے ثابت ہوا، جہاں کارکنوں نے بہتر کارکردگی دکھائی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ "وہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ سینوں میں چھپا ہے اسے بھی۔"(سورہ غافر :١٩) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ نہ صرف ظاہری اعمال بلکہ نیت اور دل کے خیالات کو بھی جانتا ہے، جو کہ نگرانی کی سب سے اعلیٰ شکل ہے۔ یہی احساس انسان کے کردار کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔
2. سوشیئل فیسلیٹیشن (Social Facilitation) یہ نفسیاتی اصول کہتا ہے کہ جب کوئی انسان دوسروں کے ساتھ یا دوسروں کی موجودگی میں کوئی کام کرتا ہے، تو اس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے، خاص طور پر اگر وہ کام اس کے لیے آسان یا معروف ہو۔ قرآن میں Social Facilitation کا ذکر، "اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔"(المائدہ :٢). یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب لوگ مل کر نیکی کا کام کرتے ہیں، تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے، جو Social Facilitation کا ایک بہترین مظہر ہے۔
3. سوشل کنفارمیٹی4. (Social Conformity Experiment) اس نظریے کے مطابق، جب انسان کو معلوم ہو کہ دوسروں کی نظر میں ہے، تو وہ معاشرتی اصولوں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتا ہے، چاہے وہ اصول اس کی ذاتی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
بھیڑ چال کی مذمت:
"اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی بات مانو گے، تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔" (الأنعام: 116) یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر کام صرف اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ زیادہ لوگ کر رہے ہیں، بلکہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کام درست ہے یا نہیں۔
اچھے اور برے ساتھی کا اثر:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اچھے اور برے ساتھی کی مثال عطر بیچنے والے اور لوہار کی بھٹی جیسی ہے۔ عطر فروش یا تو تمہیں خوشبو دے گا، یا تم اس سے خوشبو خرید لو گے، یا کم از کم اس کی خوشبو تمہیں محسوس ہوگی۔ اور لوہار کی بھٹی یا تو تمہارے کپڑے جلا دے گی، یا تمہیں اس کی بدبو محسوس ہوگی۔" (صحیح بخاری: 2101، صحیح مسلم: 2628)
4. سٹاک ہوم سینڈروم (Stockholm Syndrome) جب مانیٹرنگ زبردستی ہو
اگر نگرانی سخت ہو اور آزادی محدود کر دی جائے، تو بعض لوگ ایک غیر معمولی نفسیاتی ردِعمل ظاہر کرتے ہیں جہاں وہ اپنی نگرانی کرنے والوں کے ساتھ جذباتی وابستگی محسوس کرنے لگتے ہیں، چاہے وہ زبردستی ہی کیوں نہ ہو۔
"تو وہ (فرعون) کی پیروی کرنے لگے، حالانکہ وہ فاسق لوگ تھے۔" (الزخرف: 54)
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو اتنے عرصے تک غلام بنایا کہ وہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے اسی کو اپنا رہنما ماننے لگے۔ یہ Stockholm Syndrome کی ایک واضح مثال ہے۔
5. سائیکولوجیکل ری ایکٹینس ( Psychological Reactanc) آزادی سلب ہونے کا ردِعمل
یہ ایک نفسیاتی رجحان ہے جس میں جب کسی انسان کو لگتا ہے کہ اس کی آزادی یا اختیار کو محدود کیا جا رہا ہے، تو وہ ضد میں آ کر الٹا وہی کام کرنے لگتا ہے جس سے اسے روکا جا رہا تھا، چاہے وہ اس کے حق میں نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
"اور جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے، تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں، اپنے کپڑے اوڑھ لیے، اور اپنی ضد پر اَڑے رہے اور سخت تکبر کیا۔"(نوح:٧)
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ جب قومِ نوح کو سچائی کی طرف بلایا گیا، تو انہوں نے ضد میں آ کر الٹا اس سے دوری اختیار کر لی، جو کہ Psychological Reactance کی ایک علامت ہے۔
6. پینآپٹیکن ایفیکٹ (Panopticon Effect) مستقل مانیٹرنگ کا نفسیاتی دباؤ
یہ تصور ایک ایسے قید خانے سے لیا گیا ہے جہاں قیدیوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کب مانیٹر کیا جا رہا ہے، لیکن انہیں یہ احساس مسلسل رہتا ہے کہ وہ کسی کی نظر میں ہیں، جس کی وجہ سے وہ خود کو قابو میں رکھتے ہیں۔
"انسان جو بھی بات کہتا ہے، اس کے پاس ایک نگہبان (فرشتہ) تیار ہوتا ہے (جو اسے لکھ رہا ہوتا ہے)۔"(ق :١٨)
یہ آیت بھی Panoptical Effect کی تائید کرتی ہے، کیونکہ جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر لفظ کو محفوظ کیا جا رہا ہے، تو وہ بولنے میں احتیاط برتتا ہے۔
7. خود احتسابی اور اخلاقی بیداری (Self-Regulation & Moral Awareness)
اگر مانیٹرنگ اندرونی (Internal) ہو، یعنی کسی کو احساس ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا اس کے اپنے اصول اسے روک رہے ہیں، تو وہ خودبخود اچھے اعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، چاہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ ہو۔
حدیث میں Self-Regulation اور Moral Awareness کی مثال
احسان: اللہ کو دیکھنے کا یقین
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو (کم از کم یہ یقین رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔" (صحیح بخاری: 50، صحیح مسلم: 9)
(أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ) – اللہ کو دیکھنے کا تصور:
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو دنیا میں ظاہری آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ یہ دل کی آنکھ (روحانی بصیرت) سے دیکھنے کی کیفیت ہے۔ یہ اس درجہ کی ایمانی کیفیت ہے جہاں انسان ہر لمحہ اللہ کی موجودگی کو محسوس کرتا ہے۔
نفسیاتی اثرات:یہ تصور دماغی سکون، خوفِ خدا، اور مثبت طرزِ زندگی کو فروغ دیتا ہے
(فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ) – اللہ کی نگرانی کا یقین
اگر انسان اللہ کو اپنی بصیرت سے نہیں دیکھ سکتا، تو کم از کم یہ یقین رکھے کہ اللہ ہر لمحہ اسے دیکھ رہا ہے۔ یہ یقین انسان میں خود احتسابی، ایمانداری، اور اعلیٰ اخلاقی معیار پیدا کرتا ہے۔ یہ حدیث Self-Regulation اور Moral Awareness دونوں کو واضح کرتی ہے، کیونکہ جب انسان کو یہ شعور ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، تو وہ خودبخود بہتر اخلاق اپناتا ہے۔
انسانی ذہن میں نگرانی (مانیٹرنگ) کے اثرات نہایت دلچسپ ہیں اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے نیورو سائنس کی تحقیق کو دیکھنا ضروری ہے۔ جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے مانیٹر کیا جا رہا ہے، تو اس کے دماغ میں کئی نیوروکیمیکل (Neurochemical) تبدیلیاں آتی ہیں، جو اس کے جذبات، رویے اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
1. کورٹیسول (Cortisol) – دباؤ اور اضطراب میں اضافہ
کورٹیسول ایک اسٹریس ہارمون ہے جو دباؤ یا خطرے کے احساس کے دوران خارج ہوتا ہے۔ جب انسان کو لگتا ہے کہ اسے مستقل مانیٹر کیا جا رہا ہے، تو اس کا دماغ اسے ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھ سکتا ہے، جس سے کورٹیسول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ اضطراب (Anxiety)، گھبراہٹ (Nervousness) اور کارکردگی پر منفی اثرات کی صورت میں نکل سکتا ہے، خاص طور پر اگر نگرانی سخت ہو۔
"وہ لوگ جن سے کہا گیا کہ دشمن تمہارے خلاف بڑی تعداد میں جمع ہو گئے ہیں، ان سے ڈرو، تو اس (بات) نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور انہوں نے کہا: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔"(سورہ آل عمران :١٧٣)”
یہ آیت Cortisol کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ خوف اور خطرے کی کیفیت میں جسم میں Cortisol کا اخراج ہوتا ہے، لیکن اگر انسان اللہ پر بھروسہ کرے تو اس کا تناؤ کم ہو جاتا ہے اور ذہنی سکون ملتا ہے۔
2. ڈوپامائن (Dopamine) – کارکردگی اور انعام کا احساس
ڈوپامائن ایک خوشی اور انعام سے جڑا ہارمون ہے، جو تب خارج ہوتا ہے جب کوئی کام مکمل ہوتا ہے یا کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اگر نگرانی مثبت ہو (جیسے کارکردگی کو سراہنے کے لیے کی جا رہی ہو)، تو ڈوپامائن کا اخراج بڑھ سکتا ہے، جو موٹیویشن (Motivation) اور کارکردگی میں بہتری پیدا کرتا ہے۔اگر انسان کو لگے کہ مانیٹرنگ کے ذریعے اسے تعریف، ترقی، یا انعام مل سکتا ہے، تو وہ زیادہ محنت کرے گا۔
"جو بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ ایمان والا ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کے مطابق اجر دیں گے۔" ( سورہ النحل :٩٧)
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ نیک اعمال کے بعد انسان کو جو روحانی خوشی اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ دراصل Dopamine کے اخراج کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
روزے دار کی خوشی اور Dopamine رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت، اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔" (بخاری: 1904، مسلم:1151) یہ حدیث Dopamine کے اصول کے عین مطابق ہے، کیونکہ جب کوئی شخص افطار کرتا ہے تو اس کے جسم میں Dopamine خارج ہوتا ہے، جو اسے دلی خوشی دیتا ہے۔
3. آکسیٹوسن (Oxytocin) اعتماد اور تحفظ کا احساس
آکسیٹوسن ایک اعتماد (Trust) اور سماجی تعلق (Social Bonding) کو بڑھانے والا ہارمون ہے۔ Oxytocin کو "محبت اور تعلق کا ہارمون" کہا جاتا ہے۔ یہ ہارمون ماں کی شفقت، والدین اور بچوں کی محبت، شادی شدہ جوڑوں کی قربت، دوستوں کے درمیان بھروسے، اور کسی کی مدد کرنے کے بعد محسوس ہونے والی دلی خوشی سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ ہارمون اعتماد، ہمدردی، اور تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے۔
"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اپنے پیٹ میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔"(سورہ لقمان :١٤)
یہ آیت ماں کی محبت اور قربانی کو بیان کرتی ہے، اور سائنسی تحقیق کے مطابق جب ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے یا گود میں لیتی ہے، تو اس کے دماغ میں Oxytocin خارج ہوتا ہے، جو محبت اور شفقت میں اضافہ کرتا ہے۔
4. سیروٹونن (Serotonin) ذہنی سکون یا پریشانی
سیروٹونن ایک موڈ کو مستحکم رکھنے والا نیورو ٹرانسمیٹر ہے، جو خوشی اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ اگر نگرانی غیر ضروری یا زبردستی کی جائے، تو سیروٹونن کی سطح کم ہو سکتی ہے، جس سے فرد میں چڑچڑاپن (Irritability)، ذہنی دباؤ (Stress)، اور حتیٰ کہ افسردگی (Depression) پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر مانیٹرنگ انصاف اور مساوات کے ساتھ کی جائے، تو سیروٹونن کی سطح مستحکم رہتی ہے، جس سے فرد کو ذہنی سکون محسوس ہوتا ہے۔"وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔"سورہ (الرعد :٢٨)
جب کوئی شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے، تو اس کے دماغ میں Serotonin خارج ہوتا ہے، جو ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔ ذکر و عبادت کرنے سے ذہنی سکون ملتا ہے، جو Serotonin بڑھاتا ہے۔سورج کی روشنی اور صحت مند غذا Serotonin کو متوازن رکھتی ہیں۔سچ بولنا، اچھے اخلاق اپنانا، اور دوسروں کی مدد کرنا دماغ میں[english] Serotonin کا اخراج بڑھاتے ہیں، جو دلی خوشی دیتا ہے۔اللہ پر بھروسہ اور قناعت بھی ذہنی سکون فراہم کرتی ہے، جو Serotonin کے اثر سے جُڑی ہے۔
5. ایڈرینالین (Adrenaline) خطرے اور بغاوت کا ردعمل
ایڈرینالین ایک "لڑو یا بھاگو" (Fight or Flight) ہارمون ہے، جو تب خارج ہوتا ہے جب انسان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔سخت نگرانی یا زبردستی کی گئی مانیٹرنگ، ایڈرینالین کو بڑھا سکتی ہے، جس سے فرد میں مزاحمت، بغاوت، یا حتیٰ کہ جارحانہ رویہ پیدا ہو سکتا ہے_
"اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے، ہمارے قدم جما دے، اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔"(سورہ البقرہ : ٢٥٠)
یہ آیت ان مومنین کی دعا ہے جو خوف کے عالم میں Adrenaline کے اثر سے گزر رہے تھے، اور اللہ سے صبر اور ثابت قدمی طلب کر رہے تھے۔جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ ہر وقت اسے دیکھ رہا ہے، تو اس کی نیت میں اخلاص، کردار میں بہتری، اور اعمال میں تقویٰ آ جاتا ہے۔
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اللہ کی نگرانی محض ایک تصور نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، جو انسانی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔بالکل اسی طرح ہمیں روزے سے بھی متعلق بھی ایک حدیث مبارکہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو اللہ کی ڈائریکٹ مانیٹرنگ سے ریلیٹ کرتی ہے . ہر نیک عمل ابن آدم کے لیے ہے، مگر روزہ خاص میرے لیے ہے، اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔(صحیح بخاری: 1904، صحیح مسلم: 1151)
اگر کوئی یہ سوچے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر اللہ کی نگرانی کا یقین ہو، تو وہ اپنے عمل کو بدل دے گا، اور روزہ مکمل رکھے گا۔ جب ایک معمولی ذرہ بھی مشاہدے کے زیرِ اثر اپنا رویہ بدل لیتا ہے، تو انسان کی فطرت اس سے کہیں زیادہ لطیف اور حساس ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جو اللہ کی نظر سے اوجھل ہو، تو اس کا ہر عمل، ہر سوچ، اور ہر ارادہ سنورنے لگتا ہے۔ یہ احساس نہ صرف اس کی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے بلکہ اس کے کردار کو بھی جِلا بخشتا ہے۔ لیکن یہ نگرانی کوئی سرد اور بے حس مشاہدہ نہیں، بلکہ یہ محبت بھری نظر ہے! جیسے ایک ماں اپنے بچے کو ہر لمحہ دیکھتی ہے، اس کے ہر قدم کا خیال رکھتی ہے، اسے گرنے نہیں دیتی، اس کی تکلیف پر تڑپ جاتی ہے—اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ اللہ اپنے بندے کے ساتھ ہے، اسے دیکھ رہا ہے، اسے سن رہا ہے، اس کی خاموش دعاؤں کو بھی جان رہا ہے، اور اس کے ہر حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہی شعور، یہی یقین، یہی نگرانی کا احساس—احسان کی معراج ہے!
یہی احساسِ عبدیت اور نگاہِ الٰہی کا شعور وہ قوت ہے جو ایک بکھرے ہوئے انسان کو سنوار دیتی ہے، ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو راہ دکھا دیتی ہے، اور ایک عام شخص کو ولی بنا دیتی ہے۔ جب بندہ اس حقیقت کو اپنی روح میں بسا لیتا ہے کہ "میرے ہر عمل کا ایک گواہ ہے، میرا ہر لفظ لکھا جا رہا ہے، میرا ہر ارادہ جانا جا رہا ہے، اور وہ جو میرا رب ہے، وہ میری ہر حالت پر نظر رکھے ہوئے ہے نہ صرف دیکھ رہا ہے، بلکہ میرے لیے فکرمند ہے، میری بہتری چاہتا ہے، اور مجھ سے محبت کرتا ہے!" تو پھر اس کے عمل میں نکھار آ جاتا ہے، نیت میں اخلاص آ جاتا ہے، اور زندگی میں مقصدیت اور تقویٰ کے رنگ بھر جاتے ہیں۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: "جب بھی گناہ کا ارادہ کرو، تو پہلے ایسی جگہ تلاش کرو جہاں اللہ تمہیں نہ دیکھ سکے، پھر گناہ کرنا!"
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا قول ہے: "جو تنہائی میں اللہ سے ڈرتا ہے، وہی حقیقی مؤمن ہے!"
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: "جب بھی تم گناہ کی طرف مائل ہو، تو یہ سوچو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اور فرشتے تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں!"
امام غزالیؒ لکھتے ہیں: "اللہ کی نگرانی کا احساس، انسان کے باطن کو ایسا سنوار دیتا ہے جیسے پانی درختوں کو ہرا کر دیتا ہے!"
حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں: "اللہ سے حیاء کرو جیسا کہ تم کسی نیک انسان کے سامنے شرماتے ہو!"
یہی وہ محبت ہے جو انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے! یہی وہ کیفیت ہے جو اللہ کے قرب کا دروازہ کھولتی ہے، اور جس کے دل میں یہ یقین جاگ جائے، وہ حقیقت میں جینے لگتا ہے! مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ
"ہر لحظہ بہ ہر جاست نگارم حاضر"
"در آئینۂ دل نگر و بین کہ کجاست"
میرا محبوب (اللہ) ہر لمحہ، ہر جگہ موجود ہے،
اپنے دل کے آئینے میں دیکھ، وہ کہاں ہے!
تبصرہ لکھیے