اللہ نا کرے کہ اس ماہ مبارک کو ہمیشہ کے لیے ہم الوداع کہیں. یہ تو میرے رب العالمین کا ہمارے لیے انعام واکرامات کے حصول کا سلسلہ اور ذریعہ ہے. ان شاء اللہ اگلے سال پھر رب العزت ہمیں یہ خوبصورت موقع عطا فرمائے گا.
رحمتوں اور برکتوں والے اس ماہ مبارک کے یہ چند دن ابھی باقی ہیں، ذرا اپنے من کو ٹٹولیں کہ کیا پایا؟ اس خزانے کا صرف دور سے ہی نظارہ کرتے رہے یا دامن میں کچھ سمیٹا؟ اس ماہ مبارک کی فضیلت اسی میں چھپی ہے کہ نہ صرف اپنے من کی دنیا کو سنوار لو بلکہ دوسروں کے دامن میں بھی کچھ ڈال دو .اس ماہ مبارک سے کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟ان پاک گھڑیوں کو کس طرح گذارنا ہے؟ کن باتون کا خیال رکھنا ہے؟ کیا ہم نے ان سب چیزوں اور باتوں کے بارے میں سوچا اور خیال رکھا؟؟
جی ہاں!
اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ روزے رکھنا، نہ صرف فرض نمازوں کا اہتمام کرنا بلکہ نوافل کا بھی دلجمعی سے ادا کرنا، باقاعدگی کے ساتھ کلام الہی کی تلاوت کرنا، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کرنا بھی لازمی ہے، سوچیں کہ کہیں ہم سے کسی کے معاملے میں کوتاہی یا زیادتی تو سرزد نہیں ہوئی، ہوئی ہے تو تلافی ضروری ہے.
ویسے تو ہر نیکی کا اجر وثواب بے انتہا ہے مگر انفاق فی سبیل اللہ اس ماہ کا ایک بہترین عمل ہے. یہ عمل نہ صرف ہمارے لیے ثواب و اجر کا باعث ہے بلکہ ضرورت مندوں کا حصہ و حق ہے جو اللہ رب العالمین نے انھیں پہنچانے کے لیے ہمیں سونپا ہے. کیا ہم نے یہ امانت ایمانداری کے ساتھ ان حقداروں تک پہنچا دی ہے؟ نہیں تو ابھی بھی چنددن باقی ہیں، جلدی سے اس فرض کو انجام دے دیں-کسی کا قرض، کسی کی جائیداد کا حصہ وغیرہ آپ کے ذمہ ہے تو جلد اس سے بھی فارغ ہو جائیں. اللہ رب العزت کو نا انصافی پسند نہیں.
ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں داخل ہو چکے ہیں. نیکیوں کے اہتمام کے ساتھ اپنے دامن کو گناہوں سے پاک کرنے کے عشرے سے مستفید نہ ہونا اپنی ذات کے ساتھ نا انصافی ہوگی، خود سے ظلم کے مترادف ہوگا، لہذا رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرلو. آنسوؤں کے نذرانے کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے بخشش طلب کرلو. اللہ ہی تو ہے جو ہمیں معاف کر سکتا ہے، ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان، اللہ ہم سب کے ظاہر وپوشیدہ گناہوں سے واقف ہے، ہمیں معاف کردے، خطاکاروں کو بخش دے. رات کے آخری پہر اپنے رب سے سرگوشیوں میں جو طلب کرو گے یقیناً وہ مایوس نہیں کرے گا. اس کا دربار تو ہم گناہگاروں کی توبہ کے لیے ہر گھڑی کھلا ہے. نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی و بھلائی کے لیے دعا مانگو، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے، اپنے والدین کی مغفرت کے لیے، اپنے عزیز و اقارب کی بھلائی کے لیے دعائیں مانگو. یقیناً میرے رب کو آپ کی یہ ادا بھی پسند آئے گی اور وہ آپ کی دعاؤں کو مستجاب فرمائے گا، کیونکہ وہی تو ہے جو ہمارے دل کی جائز خواہشات کو زبان پر آنے سے پہلے ہی سن لیتا ہے اور قبول فرماتا ہے. سبحان اللہ
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے رب العالمین کے اس مہمان عظیم ماہ رمضان کی ٹھیک طرح سے ضیافت کی، جو اس کا حق تھا. اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو اب بھی وقت ہے، ان چند دنوں سے فیض اٹھایا جاسکتا ہے. میرا رب تو بندے کے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کی سر گوشیوں والے ایک سجدے کو بھی اپنے دربار میں قبول کرلیتا ہے. اس کا دربار تو ہر گھڑی ہم گنہگاروں کی خطاؤں کی معافی مانگنے کے لیے کھلا ہے. آئیں آگے بڑھیں اور رجوع الہی کی طرف مائل ہوجائیں. ہمیں نہیں معلوم کہ اگلا سال زندگی کا ملے یا نہ ملے، پھر یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو، ان چند دنوں میں اپنے دامن کو گوہر نایاب سے بھر لیں، جو ہماری آخرت کے لیے زاد راہ بن جائے اور ہمیں جنت الفردوس کا مکین بنائے. آمین ثم آمین
تبصرہ لکھیے