رمضان المبارک کے مہینے میں اﷲتعالیٰ مسلمانوں پر روحانی اعتبار سے بے پناہ اور بے شمار رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ذیل میں اس ماہ مقدس کے فضائل پر اجمالی نظر ڈالی جاتی ہے:
1- رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام مقدس دنیا میں جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعے سے نبیﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمانے کی ابتدا فرمائی۔
2- اس مبارک مہینے میں نماز تراویح میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
3- اس مہینے کے آغاز سے ہی جنت کے تمام دروازے روزے داروں کے اعزاز واکرام میں ایک مہینے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔(بخاری شریف جلد 1 صفحہ 255)
4- اس مبارک مہینے میں نفلی عمل اجر کے اعتبار سے ایک فرض کے اجر کے برابر قرار دیا جاتا ہے اور ایک فرض کے اجر کو ستر(70) فرائض کے اجر تک بڑھا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان جلد 3 صفحہ 305)
5- اس مہینے میں سرکش شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔(ترمذی شریف جلد 1 صفحہ 331)
6- اس مہینے میں ایمان والوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔(شعب الایمان جلد 3 صفحہ 305)
7- جو لوگ اس مہینے میں اپنے ماتحتوں/خادمین/ملازمین/اسٹاف کے افرادوغیرہ کی ذمہ داریوں میں کچھ کمی کردیںتواللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتے ہیں۔(شعب الایمان جلد 5 صفحہ 223)
8- اس مبارک مہینے میں چار(4) چیزوں کی خوب کثرت کرنے کاحکم ہے:وہ چار چیزیں یہ ہیں:(۱)کلمہ طیبہ لااِلہ اِلااللہ (۲) استغفار (۳) جنت کی طلب کرنا (۴)جہنم سے پناہ مانگنا۔حدیث شریف میں ہے کہ چار چیزوں کی اس مہینے میں کثرت رکھا کرو، جن میں سے دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعے اﷲتعالیٰ کو راضی اور خوش کروگے، اور دو چیزیںایسی ہیں جن سے تمہیں چارۂ کار نہیں، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں: جنت کی طلب ،جہنم سے پناہ ۔ (صحیح ابن خزیمہ، باب فضائل شہر رمضان جلد3صفحہ 191)
9- اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہوتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 174)
10- اس مبارک مہینے کی ایک رات(شب قدر)میں عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔(مسند احمد جلد 2 صفحہ 425)
11- اس مہینے کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاجاتاہے۔
12- اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں خود (دیتا) ہوں۔(مسلم شریف جلد 1 صفحہ 363)
13- اس مبارک مہینے میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے آزادی عطا فرما دی جاتی ہے جواپنے اعمالِ بد کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں، نیز جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے اس آخری دن تک جتنی تعداد جہنم سے آزاد کی گئی ہوتی ہے، اس مجموعی تعداد کے برابر اس ایک دن میں ایمان والوں کو جہنم سے آزادی کے پروانے عطا کیے جاتے ہیں۔(کنزالعمال جلد 8 صفحہ 268)
ایک حدیث میں چارقسم کے اشخاص کا ذکر ہے جن کی رمضان میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، حدیث ملاحظہ فرمائیے!
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں ، اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آخری رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے ہوتے ہیں ان کے برابر اس ایک دِن میں آزاد فرماتے ہیں ۔اور جس رات شبِ قدر ہوتی ہے تو اس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو (زمین پراترنے کا )حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ، ان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کووہ کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں ۔حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سوبازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواس کو سلام کریں اور اس سے مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے، جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام آواز دیتے ہیں : اے فرشتوں کی جماعت!اب کوچ کرواور چلو۔ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی امت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : وہ چار شخص کون سے ہیں؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو ۔3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناتاتعلق توڑنے والا ہو ۔4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو ۔(الترغیب و الترہیب)
اگر ہم اپنے من میں جھانک کر دیکھیں تو ہم میں سے ہر شخص ان چار میں سے کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا نظر آئے گا،اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پہلی فرصت میں ان گناہوں سے سچے دل سے توبہ کریں،اپنے گناہوں پر سچے دل سے ندامت ہو ،آئندہ نہ کرنے کا عزم ہو،ان گناہوں سے فوری طور پر اس عزم کے ساتھ باز آجائیں کہ اب کبھی بھی دوبارہ ان کی طرف نہیں لوٹیں گے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
14- جس شخص نے اس مبارک مہینے میں عمرہ اداکیا، اسے اتناثواب ملتاہے گویا اس نے حضورﷺکے ساتھ حج کیا۔(بخاری شریف جلد 2 صفحہ251)۔
تبصرہ لکھیے