ہوم << پاکستان کی روایتی مجبوریاں، بھارت چمپیئن ٹرافی لے اڑا - عمرفاروق

پاکستان کی روایتی مجبوریاں، بھارت چمپیئن ٹرافی لے اڑا - عمرفاروق

چمپیئنز ٹرافی 2025 کے فائنل میچ میں بھارت نے نیوزی لینڈ کو شاندار مقابلے کے بعد شکست دے کر تیسری مرتبہ چمپیئنز ٹرافی اپنے نام کر لی۔بھارت نے اس ٹورنامنٹ کے تمام میچز باآسانی اپنے نام کیے۔یہ ٹورنامنٹ کئی حوالوں سے اہم تھا کیونکہ اس کی میزبانی ایسے وقت میں پاکستان کو ملی تھی جب پاکستان کے پاس کوئی بھی انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی کے لیے ڈھنگ کا میدان تک نہیں تھا۔ بھارت نے اس بات پر روایتی واویلا مچایا اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ پاکستان اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی نہیں کر سکتا، لیکن موجودہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ریکارڈ مدت میں پاکستان کے تین بڑے اسٹیڈیمز جن میں لاہور قدافی اسٹیڈیم، راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم اور نیشنل اسٹیڈیم کی مکمل تزئین و آرائش کروائی اور آئی سی سی کو اس بات پر قائل کیا کہ ہم اس ایونٹ کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔

جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تو اصل ڈرامہ تب شروع ہوا، جب بھارت نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ یہاں بہت سے سابق کرکٹرز اور تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ پاکستان اس پر ڈٹ جائے اور بھارت کے بغیر پورا ٹورمنٹ پاکستان میں کروائے، لیکن ایسا کرنا پاکستان کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کیونکہ یہ بات پاکستان اور بھارت دونوں جانتے تھے کہ پورا ٹورمنٹ ایک طرف اور پاک بھارت میچ ایک طرف، یہ مال کمانے کا بہترین موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیا جا سکتا تھا جس میں ایک سیکنڈ کے ٹی وی کمرشل پر کروڑوں آتے ہوں۔

بہر حال بھارت نے پاکستان کے سامنے نیوٹرل وینیو کا آپشن رکھا، جس کو پاکستان نے اس شرط کے ساتھ قبول کر لیا کہ مستقبل میں کسی بھی بڑے ایونٹ میں پاکستان کے میچز بھی بھارت کے ساتھ نیوٹرل وینیو پر ہی ہوں گے. لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں ممالک ریلیشن اتنے ہی خراب ہیں تو پھر کسی بھی ایونٹ میں دونوں ٹیموں کو ایک ہی گروپ میں رکھ کر میچز کروانا اتنا ضروری کیوں ہیں، جبکہ دونوں ممالک یہ بات جانتے ہیں کہ کرکٹ کے ذریعے بھی ریلیشن میں بہتری کی امید نہیں ہے؟ سوائے دونوں بورڈ کے مالی فائدے کے.

بہرحال کرتے کراتے یہ میگا ایونٹ جب شروع ہوا تو بھارت پر یہ الزام بھی لگا کہ جے شا جو کے موجودہ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کے سابق چیئرمین ہیں، انھوں نے اس ٹونامنٹ میں بھارت کو فیور دی اور ایسے گراؤنڈ کا انتخاب کیا، جس کی بھارت کی ٹیم کو مکمل سپورٹ ملی اور سپنرز کا جال بچھایا گیا ، جس سے کسی بھی ٹیم کو پھنسایا جا سکے. دبئی اور پاکستان کی پچز میں زمین آسمان کا فرق ہے. دوسری ٹیموں کے پاس صرف پاکستانی کنڈیشنز کے مطابق تیاری تھی، جس کا الزام برطانوی اخبار the times نے لگایا ''ٹاس کرانے کی کیا ضرورت، روہت شرما سے پوچھ لیں بیٹنگ کرنی یا بولنگ''

بھارت کو ایک وینیو دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انھیں دوسری ٹیموں کی طرح زیادہ سفر نہیں کرنا پڑا، جس سے کھلاڑیوں کو کافی مدد ملی، جنوبی افریقا کے کھلاڑی بھی اس بات کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی آخری امید نے بھی دم توڑ دیا اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ایک بار پھر مایوس کن رہی، اور پہلے ہی میچ سے تقریبا باہر ہو گئی. رہی سہی کسر روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست سے نکل گئی۔ ان تمام تر فیورز کے الزامات کے باوجود بھارت کے ٹیم نے ہر میچ میں شاندار کارکردگی پیش کی اور دلیری سے کھیلی کسی بھی ڈیپارمنٹ میں کمی نظر نہیں آئی اور پاکستان کی میزبانی سے نہ صرف فائنل چھینا بلکہ ٹرافی بھی لے گئے۔

ایک بات جو قابل غور اور نہایت شرم ناک تھی. وہ یہ کہ پاکستان میزبان تھا اور فائنل میچ کی پوسٹ میچ تقریب میں پاکستان کی طرف سے کوئی بھی ہوسٹ نیشن کے طور پر ٹرافی کو پیش کرنے والا نہیں تھا. اس موقع پر ابھی تک پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے وضاحت سامنے نہیں آئی لیکن اس طرح کے انٹرنیشنل لیول کا شاندار ٹورمنٹ پاک بھارت روایتی تنگ نظری اور سیاسی دشمنی کی نظر ہو گیا۔

اب دیکھنا دلچسپ ہو گا کے آنے والے آئی سی سی ٹورمنٹ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کون سا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے کیا بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے یا پھر سے بھارت مضبوط معیشت کے دم پر اپنی بات منوائے گا؟ اس سوال کا جواب ہمیں آنے والے ایونٹ میں ملے گا لیکن ایک بات صاف ہو گئی کہ اس وقت کرکٹ میدان میں ہو یا میدان کے باہر بھارت مکمل راج کر رہا ہے۔

Comments

Click here to post a comment