ہوم << کیا عورت مرد کا ضمیمہ ہے؟ - رقیہ اکبر چوہدری

کیا عورت مرد کا ضمیمہ ہے؟ - رقیہ اکبر چوہدری

کچھ روز قبل ہم نے گھروں میں کام کرنے والی اور گاؤں کی غیر تعلیم یافتہ خواتین کی نفسیات کے حوالے سے بات کی تھی۔ آپ سب کی رائے یہی تھی کہ ایسا صرف ان دو طبقوں میں ہی نہیں، ہر جگہ یہی دیکھنے کو ملتا ہے، اور یہی میرا مشاہدہ بھی تھا جس کے عوامل جاننے کےلیے ان دو طبقوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے رکھا گیا۔ آپ دوستوں کی آراء سے مجھے اس نفسیاتی رویے کی وجوہات سمجھنے میں آسانی ہوئی۔

معاملہ یہ ہے احباب کہ بہت پہلے میرا یہ گمان تھا کہ ایسا رویہ صرف ان دو طبقوں کا خاصہ ہے، پڑھی لکھی باشعور عورت ایسا نہیں کرتی۔ لیکن جب سے سوشل میڈیا پر خواتین کے مسائل پہ بات ہونا شروع ہوئی میری یہ خوش گمانی ختم ہو گئی۔

میں نے دیکھا کہ خواتین چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی باشعور کیوں نہ ہوں، جہاں سامنے مرد آ جائے وہاں کوئی اندرونی طاقت انہیں بیک فٹ پہ دھکیل دیتی ہے وہ ایسے موضوعات پہ لکھنے سے بھی گریز کرتی ہیں جن موضوعات کو مردوں کی طرف سے اپروول نہ ملا ہو اور اس بیانیے کی حمایت میں تو ہرگز نہیں لکھ پاتیں جس بیانیے کو مردوں کی اکثریت نے رد کر دیا ہو۔

ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کےلیے میں نے کئی برس خواتین کے مزاج کا جائزہ لیا، ان کی تحاریر و تبصروں کے ذریعے ان کے اصل بیانیے تک پہنچنے کی کوشش کی، اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ جن خواتین کا بیانیہ سوشل میڈیا کے مقبول عام مردوں کے بیانیے کے حق میں ہوتا ہے تو کیا واقعی وہ ایسا ہی سوچتی بھی ہیں، یا کسی سماجی دباؤ کے زیر اثر اپنے مزاج کے بر خلاف اسی بیانیے کی حمایت کرنے پہ مجبور ہوتی ہیں، جو یہاں کے مردوں کا بیانیہ ہوتا ہے؟

تو مجھ پہ یہ عقدہ کھلا کہ عموماً (واضح رہے بات عموماً کی ہو رہی ہے، اکثریت کی نہیں) خواتین ایسے معاملات میں مرد کی ہاں میں ہاں ملانے پہ اس لیے مجبور ہوتی ہیں کیونکہ اس کے بنا ان کا سروائیول مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں کا مرد بھی (عموماً) چاہے کتنا ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو، خواتین کی جانب سے مختلف یا متضاد رائے کے اظہار کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ اس کی وجہ شاید وہ مائنڈ سیٹ ہے کہ وہ برتر ہے، لہٰذا خواتین چاہے گھر کی ہوں یا باہر کی، اس کی مرضی کے خلاف رائے دینے کی حقدار نہیں ہوتیں۔ اسی لیے خواتین کو مردوں کی ہمنوائی میں ہی اپنی بقا نظر آتی ہے۔ وہ جانتی ہیں جب تک یہ ہم سے راضی ہیں ہماری چنگی ہی گزرے گی.

کسی نے کہا "گھروں میں بھی بہوؤں کو اسی اسکیم کے تحت سسر کی آؤ بھگت کرتے دیکھا ہے"
مردوں کے معاشرے میں ایسی متنازعہ بات کرنا ہم خواتین افورڈ ہی نہیں کر سکتیں، جس سے مردوں کی طرف سے خفگی ،برہمی اور ناپسندیدگی کا احتمال ہو۔ ہمارے لیے گھروں کی طرح یہاں بھی ان کی گڈ بکس میں رہنا مجبوری بن جاتا ہے. دوسری صورت میں گھر کی طرح یہاں بھی خواتین کو دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔

جس طرح گھروں میں اختیار و اقتدار اور سیاہ سفید کا اصلی مالک مرد ہوتا ہے، یہاں سوشل میڈیا پر بھی عموماً اسی کا سکہ چلتا ہے. یہی وجہ ہے کہ خواتین حق بات بھی یہاں کے مردوں کا موڈ دیکھ کر کرتی ہیں(اکثر نہیں عموماً) کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ عورت وہی اچھی جو مرد کی ہاں میں ہاں ملائے. اچھی عورت کی سند بس اسی کو مل سکتی ہے اور یہاں راج صرف وہی عورت ہی کر سکتی ہے۔ جو عورت ایسا نہیں کرے گی اس کےلیے یہاں رہنا ناممکن نہ سہی آزار ضرور بنا دیا جائے گا۔ بلکہ ان مردوں کے کردار اور نیت دونوں کو سوالیہ نشان بنا دیا جاتا ہے، جو خواتین کی اس رائے کی توثیق کر دیں، جو یہاں کے کرتا دھرتا مردوں کی رائے کے خلاف ہو گی۔

یہ نظر نہ آنے والا ایسا سماجی جبر ہے جس نے خواتین کو ان دیکھی زنجیروں میں باندھ دیا ہے، اور وہ شعوری یا لاشعوری طور پر خود کو مردوں کا ضمیمہ سمجھ کر اسی رائے کی توثیق کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں، جو مردوں کی رائے ہوتی ہے چاہے وہ اس سے متفق ہوں یا نہیں۔ یقین نہ آئے تو آج عالمی یوم خواتین پر خواتین کی تحاریر دیکھ لیجئے گا۔ بلکہ آج ہی کیوں گزشتہ برسوں کی پوسٹیں بھی اس بات کی گواہی دیں گی کہ خواتین کسی سخت ردعمل کے خوف سے یوم خواتین پہ بھی ہومیوپیتھک پوسٹیں لگانے پہ مجبور ہوتی ہیں۔

آج بھی خواتین فیمنسٹوں کو آئینہ دکھانے ،ان سے اظہار لاتعلقی کر کے خود کو اچھی، نیک سیرت، باحیاء خواتین ثابت کرنے پہ اپنی پوری توانائیاں خرچ کر دیں گی، حالانکہ وہ خود بھی اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ آج جس آزادی سے وہ سوشل میڈیا سمیت دنیا کی ہر نئی ایجاد و دریافت سے فیض یاب ہو رہی ہیں، وہ آزادانہ چلت پھرت، اور اسی آگاہی اور کوششوں کا ثمر ہے جو دنیا بھر کی فیمنسٹ تنظیموں نے پھیلائی ہے، لیکن وہ پھر بھی اس سے برات کا اعلان کریں گی کیونکہ جانتی ہیں
عورت وہی اچھی وہی قابل قبول
جو مرد کی رائے سے "اتفاق" کرے۔

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ اور کالم نویس ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment