ہوم << وراثت کی بروقت تقسیم کےلیے آواز بلند کریں - افشاں نوید

وراثت کی بروقت تقسیم کےلیے آواز بلند کریں - افشاں نوید

کل پانچویں تراویح کے دوران امام صاحب نے سورة النساء کی تلاوت کی۔۔
ورثے کی تقسیم سے متعلق آیات تھیں۔۔
ریاضی کا فارمولا کہ کس کے کتنے حصے ہیں۔۔
کس کو آدھا ملنا ہے ,کسی کو ایک تہائی, کس کو دو چوتھائی۔۔
اللہ نے جسے مخلوقات میں اشرف بنایا , ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے علم میں نہ ہو کہ یہ انسان آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور تک پہنچ جائے گا۔۔
اور اس سے بھی آگے نہ معلوم کتنی دنیائیں ہیں۔۔۔

ترکے کے معاملے میں اگر یہ ہدایت کی جاتی کہ تقویٰ سے قریب تر تم اس معاملے کو حل کرلو۔۔
اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور آپﷺ کے بعد کے ادوار کے فقہاء اس کی تفصیلات اپنے زمانے کے حساب سے طے کر لیتے ۔۔
دسیوں معاملات ایسے ہیں جن میں فقہاء نے تعبیرات اور حالات کے حساب سے گنجائشیں نکالی ہیں۔۔
لیکن۔۔۔۔۔ انسان کی مال سے محبت کو اللہ خوب جانتا ہے۔۔ سورہ الملک میں اللہ تعالی فرماتا ہے نا "کیا وہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا"
اس لیے اللہ نے ایک ریاضی کے فارمولے کے تحت ترکے کے حصے مقرر کر دیے۔۔یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں رکھا۔۔۔
فقہاء کہتے ہیں کہ چاہے جتنے ہی نامساعد حالات ہوں ترکے کی تقسیم میں اب کوئی تبدیلی قیامت تک نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ترکہ اللہ نے خود تقسیم کردیا ہے۔۔

اللہ نے انسان کو کتنا اکرام دیا کہ ترکے کی تفصیلات بتاتے ہوئے یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ"جو وصیت میت نے کی ہو ، وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض اس کے ذمے ہو وہ ادا کر دیا جائے۔"
یعنی اللہ کا دیا ہوا فارمولا ان دو شرائط کے بعد آے گا۔۔
ایک وصیت اور دوسرا قرض۔۔
مالی معاملات میں اللہ اپنا حق معاف کر دیتا ہے لیکن بندے کا بندے پر حق معاف نہیں کرتا۔۔
اگر میت کے ذمہ زکوٰۃ و صدقات ہیں تو وہ اس کی موت کے ساتھ ہی ساقط ہو جاتے ہیں۔۔ لیکن قرض ساقط نہیں ہوتا ۔
لواحقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرض ادا کریں۔۔ اگر کوئی کہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد تو ترکے میں کچھ بچا ہی نہیں۔۔۔ تو نہ بچے۔
جو زندہ ہے وہ خود کما سکتے ہیں لیکن مرنے والے کو حساب کتاب سے بچانا لواحقین کی ذمہ داری ہے۔۔

وصیت کے معاملے میں بھی شریعت نے شرط عائد کی ہے کہ وصیت میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔۔
قلبی معاملات اپنی جگہ ہیں۔۔۔۔۔جو فرمانبردار ہوگا اس سے زیادہ قلبی تعلق ہوگا لیکن مالی معاملات شریعت نے قلبی معاملات کے تابع نہیں کیے۔۔
ایک انتہائی نیک عبادت گزار آدمی اگر اپنے ترکے کے متعلق جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کا حق ساقط کر جاتا ہے تو اس کی عاقبت تباہ ہونے کے مترادف ہے۔۔ حالانکہ وہ حق اس کی وصیت سے بھی ساقط نہیں ہو سکتا۔۔
ایک آدمی مطمئن ہے کہ میرے ترکے کو اللہ کی بتائی ہوئے حدود کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔۔۔
لیکن اس کے سامنے اس کے مرحوم بھائی کے ترکے میں بیٹے بہن کو حصہ نہیں دے رہے تو اس شخص سے پوچھ ہوگی کہ تمھارے سامنے یہ ناانصافی ہوئی تو تم کیوں نہیں بولے؟

مجھے لگا رات عرب قاری کی آواز گلوگیر تھی یہ آیت پڑھتے ہوئے کہ "یہ اللہ کی حدود ہیں جو ان سے آگے نکلے گا جہنم میں ڈال دیا جائے گا"
مالی معاملات بہت حساس ہیں۔۔
انسان کی کڑی آزمائش۔۔
اچھے اچھے دین دار بھی اپنے لیے گنجائش نکالنے کی فکر کرتے ہیں۔۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مرحوم تو اپنی زندگی میں بھی پچھلی بیوی کی بیٹوں سے نہیں ملتے تھے تو وہ ان کی ترکے میں کیسے حقدار ہوگئے؟؟
وہ زندگی میں ہی نہیں ملے، اللہ کے جواب دہ ہوں گے۔ لیکن ترکے کے معاملے میں یہ منطق نہیں چلے گی کیونکہ وہ اللہ نے مقرر کر دیا ہے۔۔

"علم الفرائض" کو "آدھا علم" کہا گیا ہے۔
یعنی آدھا علم زندگی سے متعلق اور آدھا موت سے متعلق۔ آپﷺ تاکید کرتے تھے کہ میراث کا علم حاصل کرو۔۔

ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے اس لیے وراثت کھا جاتے ہیں یا بھائی بہنوں سے معافی نامہ لکھوا لیتے ہیں۔ یا "حاضر" غائب کے ساتھ ناانصافی کر جاتا ہے۔
مالی معاملات میں بہت واضح احکامات ہیں قرآن میں۔
یہاں تک کہ قرض کے لین دین کو سفر کی حالت میں بھی لکھنے کی تاکید ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ 1400 سال پہلے اونٹوں کےسفر کے دوران لکھنے پڑھنے کے لیے کون سے کاغذ قلم دستیاب تھے؟
اللہ بندوں کی کمزوریوں سے واقف ہے اس لیے مالی معاملات میں اسلامی احکامات بہت کھرے ہیں۔۔
ایک شخص اگر مالی معاملات میں کھوٹا ثابت ہوتا ہے تو زندگی بھر کی جمع پونجی ضائع کر دیتا ہے۔۔

آپ کا کوئی قریبی عزیز دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو مغفرت کی دعا کرکے آپ فارغ نہیں ہو جاتے۔۔
وہ اپ کے ذمہ قرض چھوڑ کے گیا ہے اس کی میراث اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔۔
ترکے کے متعلق یہ بھی ہدایت ہے کہ اس کو جلد از جلد تقسیم کرنے کی فکر کی جائے۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوی کو فکر کرنا چاہیے کہ ترکہ جلد از جلد تقسیم ہو۔

دیکھا گیا ہے کہ ماں گھر نہیں بکنے دیتی کہ ایک بیٹے کے پاس گھر نہیں ہے وہ کہاں جائے گا؟
ترکے کے باقی حقداروں کی رضامندی اس صورت میں ضروری ہے کہ وہ بھائی کو رہنے کے لیے گھر دینے پر آمادہ ہوں۔۔
۔اگر اس ضمن میں کہیں ظلم ہو رہا ہو تو آواز بلند کریں، لواحقین کو خدا کا خوف دلائیں اوراپنے ایمان کا ثبوت دیں۔۔۔ حجت تمام کریں۔
قرآن صرف تلاوت, برکت۔۔۔اور رکعتیں پورے کرنے کے لیے نہیں ہے ...