نوٹ:اسکول ، کالج ،یونیورسٹی اور جج وغیرہ انگریزی الفاظ ہیں،یہ اب موَرَّدہیں، انھیں اردو میں قبول کرلیا گیا ہے ۔ پس اب اردو میں ان کلمات کی جمع کواردو کی طرز پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ججوں یا جج صاحبان لکھنا اور بولنا چاہیے۔’ بیٹس مین ‘ انگریزی کا لفظ ہے ،جب تک صرف مرد کرکٹ کھیلتے تھے تو’ بیٹس مین ‘ بولاجاتا تھا، اب چونکہ خواتین بھی کرکٹ کھیلتی ہیں، تو اس کے لیے حالیہ برسوں میں ’بیٹر‘ کی اصطلاح رائج کی گئی ہے، اس کا اطلاق لفظِ مشترک کے طورپر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کھلاڑیوں پر یکساں ہوتا ہے۔پہلے بیٹس مین کو اردو میں ’بلے باز ‘ بولتے تھے، مگر اب انگلش کے غلبے کی وجہ سے یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس نے عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے کہا :’’میں نے برادر ججوں کو مشورہ دیا تھا : سسٹم کو چلنے دیں،سسٹم کو نہ روکیں، مجھے جج لانے دیں،ہمیں چیزوں کوخلط ملط نہیں کرنابلکہ حل کرنا ہے، ہمیں جاری نظام پر اعتبار کرنا ہوگا‘‘۔ انھوں نے مزید کہا:’’جج صاحبان کے خطوط لکھنے کی عادت پرانی چل رہی ہے ،اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا ، پرانی چیزیں ہیں، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے نام لکھا جانے والا خط مجھے بعد میں پہنچتا ہے، میڈیا پر پہلے نشر ہوجاتا ہے ، جج صاحبان ’پینک‘ کرجاتے ہیں ، شاید انھیں اعتبار نہیں رہا‘‘۔ پینِک کے لفظی معنی ہیں:’گھبرا ہٹ‘،شاید یہاں جھنجھلاہٹ مراد ہے۔انھوں نے کہا:’مجھے جج لانے دیں ، اچھے جج آرہے ہیں،جج صاحبان کے اٹھ کر چلے جانے کے سبب ایک اہل جج سپریم کورٹ کا حصہ بننے سے رہ گیا ‘۔ انھوں نے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کو بھی سپریم کورٹ میں لانے کا دفاع کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے :چیف جسٹس پاکستان جناب یحییٰ آفریدی متوازن مزاج کے حامل ہیں، اپنے مزاج میں تحمُّل اور بردباری رکھتے ہیں،جبکہ چند دوسرے جج صاحبان اس صفت سے عاری ہیں۔موجودہ اور سابق جج صاحبان افتخار محمد چودھری ، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد ، ثاقب نثار ، عمر عطا بندیال ،اعجاز الاحسن ، سیدمنصور علی شاہ ، منیب اختر، اطہر من اللہ،عائشہ ملک ،قاضی فائز عیسیٰ ، ملک شہزاد احمد خان اور عقیل عباسی اسی عدمِ تحمل کا مظہر ثابت ہوئے۔ انھوں نے پورے سسٹم کو جوتے کی نوک پہ رکھنا چاہا، حدود سے تجاوز کیا، لیکن انجامِ کارحاصل کچھ بھی نہ ہوا، یہی کیفیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی رہی ۔ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اُس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ساتھ مل کر کیا تھا اور اُس کے نتیجے میں ’بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم‘کا مصداق بنے،نہ تاریخ میں عزت ملی ، کیونکہ یہ اُصول پسندی کا نہیں ، عُجبِ نفس اور جوڑ توڑ کامسئلہ تھا۔ آج پاکستان کے نامور ترین ججوں کی فہرست میں اُن کا نام کہیں نہیں ہے ۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا تاثُّر بہت اچھا تھا ،لیکن وہ اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ توازن کھوبیٹھے اور اپنے ’چیمبرکے ساتھی‘چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی بھی رعایت نہ کی۔
دانا لوگوں کا کام دیوار سے ٹکریں مارکر دیوار کو گرانا یا خود کو لہولہان کرنا نہیں ہوتا ، بلکہ مشکل حالات میں راستہ نکالنا ہوتا ہے، نظام کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے اور نظام کی خامیوں کوبھی آہستہ آہستہ دور کرنا ہوتا ہے ، ضدی مُعانِد کا کردار ادا کرنے کے بجائے مُصلح کا کردار ادا کرنا اعلیٰ عدلیہ کے منصِب کو زیادہ زیب دیتا ہے۔ کیا ٹکریں مار کر نوے دن میں انتخابات کا ہدف حاصل کرلیا تھا، کیا تاریخ میں عدلیہ کے اس پورے دور کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ کیابین الاقوامی معاہدات کو عالمی قوانین سے ناواقفیت کی بنیاد پر ردّ کرنے کے نتائج ملک کے لیے مثبَت نکلے۔امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی طرف یہ قولِ زرّیں منسوب ہے:’’لَا تَکُنْ لَیِّنًا فتُعْصَرَ وَلَا یَابِسًا فُتُکْسَر‘‘ ،ترجمہ:’’اتنے نرم نہ بنو کہ تمہیں نچوڑ دیا جائے اور اتنے خشک بھی نہ بنو کہ تمہیں توڑ دیا جائے‘‘۔یعنی ایک سلیم الفطرت اور متوازن انسان کے مزاج میں اعتدال ہوتا ہے ، لچک ہوتی ہے، وہ ایک حد تک دبائو بھی قبول کرتا ہے اور ایک حد تک مزاحمت بھی کرتا ہے، لیکن معاملے کو بند گلی میں جانے نہیں دیتا۔
رسول اللہ ﷺ کو نماز میں خشوع وخضوع بے انتہا پسند تھا، نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی درجے کی حضوری ہے کہ کسی اور طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔مگر آپ ﷺ اپنے ربّ کی حضوری میں بھی لوگوں کے بشری احوال کی رعایت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے:’’ نبی ﷺ نے فرمایا: (کبھی)میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں ، اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں ،تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا(اورنماز میں اس کی توجہ بٹ جائے گی)، (مسند احمد:12067)‘‘۔الغرض ایک ماں کی قلبی کیفیت کی رعایت فرماتے ہوئے رسول اللہ ﷺ اپنی شدید خواہش کے باوجودنماز کو مختصر فرمادیتے تھے۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں،کیونکہ (فلاں)امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، پس رسول اللہ ﷺ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض (لوگوں کودین سے) متنفر کرنے والے ہیں، پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ اعتدال سے کام لے ، کیونکہ اس کی اقتدا میں کمزور، بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، (بخاری:704)‘‘،اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’ اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہااپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔
ایک این جی او کی بیگم کے اُکسانے پراوراپنی اَناکے سبب اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد اتنے مغلوب الغضب ہوئے کہ کراچی میں’ نسلا ٹاور‘ کے مکینوں کو پرتعیّش فلیٹوں سے اتار کر فٹ پاتھ پر لاکھڑا کیا ، اُن کے بحیثیتِ مجموعی اربوں روپے ایک انا پرست شخص کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگئے ،اُن کو اپنے فیصلے میں کوئی تحفظ بھی نہ دیا ،حالانکہ ایک معقول حل موجود تھا کہ جرمانہ لگاکر ان فلیٹوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی جائے،اسلام آباد میں ثاقب نثار ایسا کرچکے تھے۔حکومت کو رقم بھی مل جاتی اور لوگوں کی جمع پونجی بھی تباہ وبرباد نہ ہوتی۔ لیکن اس سنگدل انسان کے دل میں ذرا بھی ترس نہ آیا ،لوگوں کو رُلادیا اور وہ رُل گئے ۔وہ لوگ آج بھی اُس شخص کو بددعائیں دے رہے ہوں گے اور تین کروڑ کی آبادی والے شہر میں چندہزار انسان بھی نہیں ہوں گے جو اُن کا نام عزت اور احترام سے لے رہے ہوں ۔ آج وہ تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں، فرعونی مزاج کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
ہم بحیثیتِ ملک وقوم کبھی بھی مثالی صورتِ حال میں نہیں رہے اور حالاتِ حاضرہ میں تو قطعاً نہیں ہیں،چند صاحبِ منصب شخصیات کی انتہائی حد تک ناپسندیدگی کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا ہرگز دانش مندی نہیں ہے۔دو صوبوں میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، روزانہ کے حساب سے ہمارے فوجی جوان وافسراور عام شہری جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کابھی مُدّعا یہی معلوم ہوتا ہے کہ نظام کتنا ہی برا ہو، اُس کی سزا پورے ملک اور قوم کو دینا دانش مندی نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم انقلابی ہیں ، نہ یہاں کوئی انقلابی تحریک چل رہی ہے ،نہ قوم کا مزاج انقلابی ہے اورنہ انقلابی قیادت یہاں میسر ہے۔ جو کچھ بھی ہمیں حاصل کرنا ہے، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا ہوگا ۔شاہد خاقان عباسی کے بقول 2018کے قومی انتخابات چوری ہوئے اور 2024کے انتخابات میں ڈکیتی ہوئی ،پس کوثر وتسنیم میں دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کبھی بھی آئین میں دی گئی خود مختاری کی حامل نہیں رہی ،یہی صورتِ حال عدلیہ کی ہے ۔ بس فرق یہ ہے کہ ہم پابندیوں میں انتہائی تابع فرمان بن جاتے ہیں اور آزادی کی ہوا چلے تو ساری حدیں عبور کرجاتے ہیں ، توازن کھوبیٹھتے ہیں اور جمع شدہ پونجی بھی ضائع کربیٹھتے ہیں، ہم نے 1960کے عشرے سے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا اور برتا ہے۔
تبصرہ لکھیے