ہوم << پردیس میں ظلم، صبر اور معافی کی آزمائش-انجینئر افتخار چودھری

پردیس میں ظلم، صبر اور معافی کی آزمائش-انجینئر افتخار چودھری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَا تَسْتَوِی ٱلْحَسَنَةُ وَلَا ٱلسَّیِّئَةُ ٱدْفَعْ بِٱلَّتِی هِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا ٱلَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَهُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّهُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ" (سورۃ فصلت: 34) (اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے، تم برائی کو اچھائی کے ساتھ دور کرو، پھر وہی شخص جس کے ساتھ تمہاری دشمنی تھی، ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی جگری دوست ہو۔)

زندگی ایک آزمائش ہے، خاص طور پر جب انسان پردیس میں ہو، اپنوں سے دور، اپنی محنت کی کمائی سے زندگی سنوارنے کی جدوجہد میں لگا ہو۔ لیکن سب سے بڑا امتحان تب آتا ہے جب اپنے ہی بھائی، وہ جن کے ساتھ کبھی اچھے دن گزارے، مشکل میں ساتھ دینے کے بجائے دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ پردیس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ ہوتا ہے جب آپ کے ساتھ دھوکہ ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں۔

جب آفتاب پولیس لے کر آ گیا
یہ وہی آفتاب ہے جس کا نوکری کا مسئلہ بنا ہوا، اور اس کے ساتھ بہت سارے لوگ بھی، یہ اس گروپ کا لیڈر تھا جس کی مدد کے لیے میں نے قونصل جنرل صاحب سے مدد کی درخواست کی. اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ دنیا کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اتنا ظالم شخص ہے کہ جس نے میرے ساتھ 1995 میں یہ رویہ اپنا رکھا تھا‌‌. یہ 1995 کی بات ہے، میرے حالات انتہائی خراب تھے۔ میں نے ایک چھوٹی سی بک شاپ میں پارٹنرشپ کی، وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو بعد میں فراڈیا نکلا۔ مشکلات کے دن تھے، سر پکڑ کر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا کہ اچانک دفتر میں ایک آفتاب نامی شخص پولیس کے ساتھ آ گیا۔ پردیس میں پولیس کا خوف وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں مقیم ہو، اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر معاملات خراب ہوئے تو جیل جانا پڑے گا۔ آفتاب کا دعویٰ تھا کہ میں نے اسے دو مہینے کی تنخواہ نہیں دی، حالانکہ وہ میرا پارٹنر تھا! میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، یا تو میں جیل جاتا یا اسے پیسے دیتا۔ میں نے کہیں سے پکڑ کر اس کا حقِ ناحق ادا کر دیا، مگر دل میں ایک گہرا زخم چھوڑ دیا۔

پرویز کا ظلم اور میری بے بسی
یہی کہانی پرویز نامی شخص کے ساتھ بھی ہوئی۔ وہ ہمارا دور کا رشتہ دار تھا، روات پنڈی والوں کے حوالے سے ہمارا تعلق تھا۔ جب میں ایک ورکشاپ میں کام کرتا تھا، تو پرویز کفیل کو لے کر میرے پاس پہنچا اور وہ پیسے وصول کیے جو میرے دینے کے نہیں تھے۔ کمپنی کی ذمہ داری تھی، لیکن اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور مجھے بےعزت کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ لمحات تھے جب میں نے غربت، بےبسی اور دھوکے کا کرب اپنی جان پر محسوس کیا۔ 1995 میں مجھے شوگر ہو گئی، اور آج بھی جب میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں، تو یہ زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔

نو ہزار ریال اور ایک پٹھان بھائی کی کہانی
اسی دور میں، میں نے ایک پٹھان بھائی سے نو ہزار ریال لینے تھے۔ میں نے بہت وقت انتظار کیا کہ شاید وہ دے دے، لیکن جب میں اس کے گاؤں گیا، تو میں نے دیکھا کہ اس کے کالر سوئی سے سلے ہوئے تھے، جبکہ وہ کبھی ویزوں کا کاروبار کرتا تھا اور اس کے پاس بے پناہ دولت تھی۔ میں نے اسے کچھ کہا بھی نہیں، بس دل ہی دل میں سوچا کہ یار، اگر تجھے دے سکتا ہے تو اجر دے دینا، میرے لیے دعا کر دینا۔ میں کوئی بڑا نیکوکار نہیں ہوں، لیکن میں نے نیکیاں کی ہیں۔

اللہ کا انصاف اور میری ترقی
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
"الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَٰنُ، ٱرْحَمُوا مَن فِی ٱلْأَرْضِ یَرْحَمْکُم مَّن فِی ٱلسَّمَاءِ" (رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔)

زندگی میں کچھ چیزیں وقتی نقصان دیتی ہیں، لیکن اللہ کا انصاف ہمیشہ ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ اصول رکھا کہ جو بھی مجھ سے برا کرے، میں اس کے ساتھ بھلائی کروں گا۔ یہی وجہ تھی کہ جب افتاب کا معاملہ دوبارہ آیا، اور لوگ اس کی نوکری کے معاملے میں پریشان تھے، تو میں نے کونسل جنرل سے درخواست کی کہ اس کے ساتھ نرمی کی جائے، اسے چائے پلائی جائے، اس کی بات سنی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ اللہ نے مجھے ہمیشہ صبر کا اجر دیا۔ جو شخص پانچ چھ ہزار ریال کی نوکری کر رہا تھا، اللہ نے اسے چالیس ہزار ریال کی نوکری دی۔ مجھے عزت دی، ترقی دی اور آج بھی اللہ نے بہت عزت دی ہوئی ہے۔

قیامت کے دن کا انتظار
لیکن دل میں ایک بات ہمیشہ کھٹکتی ہے۔ افتاب، پرویز اور وہ سب لوگ جو مشکل وقت میں دوسروں کا خون چوستے ہیں، جو کسی کی بےبسی کو دیکھ کر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے لیے ایک ہی جواب ہے: "وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ ٱلظَّٰلِمُونَ" (سورہ ابراہیم: 42) (اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے۔)

مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میں ان کا گریبان ضرور پکڑوں گا، ان سے ضرور پوچھوں گا کہ انہوں نے میرے ساتھ ظلم کیوں کیا؟ اس دن اللہ کی عدالت میں نہ کوئی جھوٹ چلے گا، نہ دھوکہ، نہ رشوت، نہ سفارش، صرف سچ ہوگا۔

نیکی کر، دریا میں ڈال؟ یا ظلم سہ، قیامت کا انتظار؟
یہ کالم ان تمام پاکستانیوں کے لیے ایک پیغام ہے جو پردیس میں اپنے ہی بھائیوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جو قرض دے کر سودخور بن جاتے ہیں، جو کسی کی بےبسی کو دیکھ کر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یاد رکھو! دنیا کی عدالتوں میں انصاف بکتا ہے، مگر اللہ کی عدالت میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔
اور آخر میں میرا سوال یہ ہے: نیکی کر، دریا میں ڈال؟ یا ظلم سہ، قیامت کا انتظار؟ فیصلہ آپ کا!