عورت کی فطرت ایک ایسی ندی کی مانند ہے جو اپنی روانی میں نرمی اور شدت، دونوں کو سموئے رکھتی ہے۔ وہ جتنی بڑی ہو جائے، جتنے تجربات سے گزرے، اس کے اندر کا بچپن کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ اسے محبت اور توجہ خوشی دیتی ہے، اور بے اعتنائی اس کے دل کو زخمی کر دیتی ہے۔
ایک ہنستی کھیلتی عورت کے چہرے کے پیچھے اکثر وہ معصوم سی بچی چھپی ہوتی ہے جو چاہتی ہے کہ کوئی اسے سمجھے، اس کی قدر کرے، اس کی اہمیت کو تسلیم کرے۔ عورت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش مت کریں، کیونکہ جب عورت بغاوت پر آتی ہے تو وہ اپنے ہی نہیں، دوسروں کے وجود کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، اور جب وہ حد پار ہو جائے، تو اس کی نرمی ایک طوفان میں بدل جاتی ہے۔ وہ صبر کرتی ہے، لیکن ظلم سہنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے عزت دی جائے، اس کے جذبات کی قدر کی جائے، اور اسے ایک مکمل انسان سمجھا جائے، نہ کہ کوئی کمزور مخلوق جسے زیر کرنے کی ضرورت ہو۔
اگر عورت کو محبت، عزت، اور حسنِ سلوک دیا جائے تو وہ نرم گھاس کی طرح جھک جاتی ہے، ہر رشتے میں اپنی وفا کا رنگ بھرتی ہے، ہر تعلق میں اپنی محبت کا لمس شامل کر دیتی ہے۔ جو اسے سمجھ لے، اس کے لیے وہ سب سے آسان اور خوبصورت حقیقت ہے، لیکن جو اسے قابو میں کرنے کی کوشش کرے، اس کے لیے وہ ایک ایسی پہیلی بن جاتی ہے جسے حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کا پیار چاہتا ہے، تو اس کے احساسات کی قدر کرے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ساتھ رہے، تو اس کی عزت کو اپنا فخر سمجھے۔
شیکسپیئر کا ایک خوبصورت قول ہے کہ غصے سے بھری ہوئی عورت سے بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے طوفان میں اخبار کے صفحات پلٹنے کی کوشش کرنا۔ ایسی عورت کو دلیلوں سے نہیں، محبت سے جیتا جا سکتا ہے۔ جب وہ جذبات میں بہک جائے، جب اس کے الفاظ تلخ ہو جائیں، جب وہ خود کو ثابت کرنے پر آ جائے، تو اسے روکنے کے بجائے، اسے گلے لگا لیں، وہ خود ہی پرسکون ہو جائے گی۔ مرد اگر عورت کی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا نہ سیکھے، تو وہ اس کی بڑی خوبیوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ عورت کامل نہیں، جیسے کہ کوئی بھی انسان نہیں ہوتا۔
اگر کوئی اس سے محبت کرتا ہے تو اسے اس کی خامیوں سمیت قبول کرے، نہ کہ صرف اس کی خوبیوں کی وجہ سے۔ محبت کا اصل امتحان یہی ہے کہ ہم کسی کو اس کی خامیوں کے باوجود اپنائیں، اسے سنوارنے کی کوشش کریں، لیکن اسے توڑنے کی نہیں۔ عورت مرد کے سائے میں جینا چاہتی ہے، لیکن وہ اس کے ظلم کے نیچے دب کر مرنا نہیں چاہتی۔ وہ محبت کے نرم لمس کو چاہتی ہے، نہ کہ زبردستی اور سختی کو۔ اسے طاقت سے نہیں، احساس سے جیتا جا سکتا ہے۔ وہ ایک پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہے۔ وہ محبت، نرمی، اور ہمدردی سے بنی ہے، اور اسی کی مستحق بھی ہے۔
اگر عورت کا دماغ اور دل مرجھا جائیں، اگر اس کی سوچیں بے رنگ ہو جائیں، تو صرف ایک فرد ہی نہیں، بلکہ پوری نسل متاثر ہوتی ہے۔ ایک باشعور عورت ایک پوری نسل کو باشعور بناتی ہے، اور ایک ٹوٹی ہوئی عورت کئی نسلوں کے بکھرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے جو اس کا صرف عاشق نہیں، بلکہ اس کا دوست، اس کا سہارا، اور اس کا ساتھی ہو۔ وہ مرد جو اس کی عقل کا احترام کرے، اس کی شخصیت کو سراہے، اس کے خوابوں کی قدر کرے۔ عورت کو بنایا ہی محبت کے لیے گیا ہے، اسے صرف سمجھنے کی کوشش میں الجھنے کے بجائے، بس اس پر محبت نچھاور کر دی جائے تو وہ خود سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔
وہ مرد جو عورت کے اندر کی اس معصوم بچی کو زندہ رکھ سکے، جو اس کی بے تکلفی اور ہنسی کو ہمیشہ برقرار رکھے، وہی عورت کے دل میں ہمیشہ رہ سکتا ہے۔ وہ ایک ساز کی مانند ہے، جو اپنی بہترین دھنیں صرف اسی کے لیے بجاتی ہے، جو اس کے نازک تاروں کو بجانے کا ہنر جانتا ہو۔ عورت ایک سمندر کی طرح ہے—اوپر سے خوبصورت اور پُرسکون، لیکن جب غصے میں آئے تو ایک طوفان، اور اندرونی طور پر اتنی گہری کہ اس کی تہہ تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو اسے سطحی نظر سے دیکھے گا، وہ اسے سمجھ نہیں پائے گا، اور جو اس کے اندر جھانکے گا، وہ حیران رہ جائے گا کہ وہ کتنی گہری اور کتنی پراسرار ہے۔
عورت کے لیے مرد وہ ہے جو اسے خوشی دے، اسے مضبوط کرے، اور نصیحت کرنے سے پہلے اسے سہارا فراہم کرے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عورت آپ کا ساتھ دے، تو اس کے لیے ایک مضبوط دیوار بنیں، لیکن اس دیوار کا سایہ اس پر اتنا بھاری نہ ہو کہ وہ خود کو قید محسوس کرنے لگے۔ اپنی عورت کے لیے مرد بنیں، اس پر مردانگی مت جتائیں۔ اسے اپنائیں، اسے عزت دیں، اور اسے وہ مقام دیں جو اس کا حق ہے۔
تبصرہ لکھیے