ہوم << مشکلات سے نکلنے کا قرآنی طریقہ - محمد اکبر

مشکلات سے نکلنے کا قرآنی طریقہ - محمد اکبر

ایک بہن کا میسج آیا کہ ان دنوں بہت مشکلات اور مصائب کا شکار ہوں۔ اگر قرآن سے کوئی دلاسہ مل جائے تو شاید دل کو کچھ سکون آ جائے۔

میں نے ان سے جو بات عرض کی، وہ یہ ہے کہ مان لیا شکر بہت پُرلطف کیفیت اور اعلی درجہ ہے قُرب کا۔ شکر سے دل کو سکون ، آنکھوں کو ٹھنڈک اور زبان کو مٹھاس ملتی ہے، شکر سے نعمت بڑھتی ہے اور آپ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جو مزہ صبر میں ہے اور صبر کے نتیجہ میں ملنے والی بصیرت میں ہے ، اس کا مقابلہ کوئی نہیں۔ شکر نعمت کو بڑھاتا ہے تو صبر رب کے سامنے رونے دھونے اور عاجزی کو بڑھاتا ہے جو ہمارے رب کو بہت پسند ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ صبر کرنے والا شکر کرنے والے سے آگے ہوتا ہے؟
نہیں نا؟
تو سورت لقمان کی یہ آیت پڑھیے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ یقینا اس میں ہر اُس شخص کےلیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر کا پکا (اور ) اعلی درجہ کا شکر گزار ہو۔

یہاں صبر کو شکر سے پہلے لایا گیا حالانکہ آیت کے ابتدائی حصہ میں نعمت کا بیان ہے جس کے مطابق شکر کو پہلے ہونا چاہیے۔ اور یہ صرف سورت لقمان کی اس آیت میں نہیں ، سورت سبا کی آیت میں بھی ،جہاں قوم سبا پر نعمتوں کا ذکر ہے، یہی بات ارشاد فرمائی :
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ یقینا اس میں ہر اس شخص کےلیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر کا پکا (اور ) اعلی درجہ کا شکر گزار ہو۔

دیکھ بہن!
ہمیں مصائب مانگنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ہم کمزور ہیں، برداشت نہیں کر پاتے لیکن اگر آجائیں تو پھر قرآن ہمیں صبر سکھاتا ہے۔ صبر سے کیا کچھ نہیں ملتا؟

آپ کو فرشتوں کا سلام چاہیے؟ تو لیجیے:
وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍسَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِﭤ فرشتے جنتی لوگوں کے پاس ہر دروازے سے (یہ کہتے ہوئے ) داخل ہوں گے کہ تم نے (دنیا میں) جو صبر سے کام لیا تھا ، اس کی بدولت اب تمہیں سلام ہو اور تمہارے اصلی وطن میں یہ تمہارا بہترین انجام ہے۔

آپ کو زمانہ کی قیادت اور لیڈر شپ چاہیے؟ تو لیجیے:
وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا۫ اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو ، جب انہوں نے صبر کیا، ایسے پیشوا بنا دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

آپ کو اتنا کچھ چاہیے کہ آپ شمار نہ کر سکیں؟ تو لیجیے:
اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں ، ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے جائے گا۔

آپ چاہتی ہیں کہ دنیا آپ کے ساتھ ہو یا نہ ہو، اللہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے دل کو دلاسہ دیتا رہے؟ تو لیجیے:
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ بے شک صبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے۔

آپ کو مصیبت میں خوشخبری چاہیے؟ پریشانی میں کھلا ہوا چہرہ چاہیے؟ اضطراب میں مسکراہٹ چاہیے؟ کرب و درد میں امید چاہیے؟ تو لیجیے:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

آپ کا دل کیا چاہتا ہے؟ ہر مراد پوری ہو؟ جو زندگی میں آ جائے ، وہ کبھی واپس نہ جائے؟ تو لیجیے:
اِنِّىۡ جَزَيۡتُهُمُ الۡيَوۡمَ بِمَا صَبَرُوۡۤا ۙ اَنَّهُمۡ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ‏ (ایمان والوں نے ) جس طرح (دنیا میں ) صبر سے کام لیا تھا، آج میں نے انہیں اس کا یہ بدلہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی مراد پالی ہے۔

کیا آپ ایسی بندی بننا چاہتی ہیں جس کے بارے میں اللہ فرشتوں سے کہے کہ یہ کیا ہی میری اچھی بندی ہے!! تو لیجیے، حل بتا دیا:
اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ بے شک ہم نے اسے(یعنی حضرت ایوب کو) صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے!

کیا تم چاہتی ہو کہ لوگوں سے جدا محسوس کرو؟ سارا زمانہ ایک طرف ہو اور تم دوسری طرف ، تمہارے دیکھنے سننے اور جانچنے کا انداز نرالا ہو، تمہاری نظر گہری ہو اور حالات کو بھانپنے کی قوت منفرد ہو؟ تو وہی کام کرو جو یعقوب علیہ السلام نے کیا تھا یعنی صبر جمیل ۔ اب دیکھیں کہ صبر جمیل سے شروع ہونے والا سفر آخر میں کیا بصر (یعنی بصیرت ) لایا ہے!! کہنے لگے:
اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔

بہن ! یہ خوشبو یوسف کے گم ہوجانے کے دوسرے دن یا ہفتے یا مہینے یا سال بعد آنا شروع نہیں ہو گئی تھی حالانکہ اس وقت یوسف قریبی کنویں ہی میں موجود تھے۔ یہ خوشبو در اصل صبر جمیل نے پیدا کی تھی اور صبر میں جمال و خوشبو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب زبان غیر اللہ سے شکوہ کناں نہ ہو۔ بس اتنا کہے:
اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ میں اپنے رنج و غم کی فریاد صرف اللہ سے کرتی ہوں۔

اور ہاں آخری بات تو میں بھول ہی گیا کہ سورت یوسف کا خلاصہ اس آیت میں ہے:
اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص تقوی اور صبر سے کام لیتا ہے، تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

بہن! زندگی کی کتاب کے سب اوراق ہمارے مطابق نہیں ہوتے، اگر کوئی ایسا ورق سامنے آجائے جس میں راحتیں نہ ہوں تو حضرت یعقوب ، حضرت ایوب (علیھما السلام ) اور قرآن کی اِن آیات کو یاد کر لینا۔ دل بندھ جائے گا اور لہجہ صبر سے لبریز ہو جائے گا پھر تمہاری دعا میں بھی اثر ہوگا۔

اندھیرا لازم ہے سفرِ زندگی میں
تم اپنے دل میں مگر امیدِ سحر رکھو

Comments

Avatar photo

محمد اکبر

محمد اکبر دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قرآن فہمی ان کی پہچان ہے۔ قرآنی اسباق کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف آؤ! رب سے باتیں کریں اور اللہ ہے نا، امید کا راستہ دکھاتی ہیں، شخصیت کی بہترین تعمیر کرتی ہیں۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعۃ الشیخ یحیی المدنی کراچی میں تخصص کے طالب علم ہیں

Click here to post a comment