کبھی کبھار یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جو کچھ ہم پڑھتے ہیں، وہ فوراً ذہن نشین کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک عام پریشانی ہے، اور بسا اوقات اس پریشانی کی وجہ سے ہم دل برداشتہ ہو کر مطالعہ بھی ترک کر دیتے ہیں یوں ایک قیمتی علمی خزانے سے خود کو محروم کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ کسی بات کا فوراً یاد نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ ہمیں مطالعہ چھوڑ دینا چاہیے۔
دیکھیں! جب کوئی کتاب آپ کے زیرِ مطالعہ ہو اور سمجھ نہ آ رہی ہو، تب بھی پڑھتے رہیں۔ اس کا حقیقی فائدہ آپ کو تب محسوس ہوگا جب کسی علمی گفتگو میں وہی موضوع زیرِ بحث آئے، جس پر آپ نے کبھی مطالعہ کیا تھا۔
آپ کو شاید معلوم ہو! اس دماغ کے سسٹم کو اللہ تعالیٰ بالکل ہی انوکھا بنایا ہے۔ جب آپ کوئی مضمون پڑھتے ہیں، تو وہ آپ کی یادداشت کی "فرنٹ لائن" میں آتا ہے، پھر آہستہ آہستہ دماغ کے گہرے گوشوں میں جا چھپتا ہے۔ مگر جب اسی موضوع پر گفتگو ہوتی ہے، تو وہی دھندلی یادیں یکدم تازہ ہو جاتی ہیں، اور آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ معلومات آپ کے ذہن میں کہیں محفوظ تھیں!
مثلاً، اگر آپ "شرعی حدود میں انٹرٹینمنٹ" پر لیکچر دے رہے ہوں اور ایک سال قبل اس موضوع پر کوئی کتاب پڑھی ہو، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر و تفریح اور اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا ذکر آیا ہو، تو یہ مخصوص عنوان آپ کے حافظے میں دبے تمام متعلقہ نکات کو کھینچ لائے گا۔ آپ محسوس کریں گے کہ معلومات کی ایک زنجیر بن رہی ہے، جو آپ کے مطالعے کی بدولت ممکن ہو رہی ہے۔
دیکھیں بھائی!! مطالعہ نہ صرف آپ کی سوچ کو وسعت دیتا ہے بلکہ آپ کو گفتگو میں ایک الگ مقام بھی دلاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ صاحبِ مطالعہ ہوں اور کسی مجلس میں خاموش بیٹھے رہیں۔ کچھ نہ کچھ لوگ آپ سے ضرور سیکھیں گے، آپ کے خیالات سے روشنی پائیں گے۔ مگر یاد رکھیں! یہ خیالات یوں ہی پیدا نہیں ہوتے، بلکہ تبھی اُبھرتے ہیں جب آپ نے کچھ پڑھ رکھا ہو۔
لہٰذا، اگر آج پڑھا ہوا یاد نہیں ہو رہا تو پریشان نہ ہوں—بس پڑھتے جائیں! وقت آئے گا، جب یہی بظاہر بھولی بسری باتیں آپ کے علم کا خزانہ بن جائیں گی۔
تبصرہ لکھیے