ہوا سرد تھی اور اندھیرے نے اپنی سلطنت کو چاروں طرف پھیلا رکھا تھا۔ میں اور جون ایک پرانے زرتشتی مندر کے شکستہ ستونوں کے درمیان کھڑے تھے۔ اس کے ایک بغل میں راموز تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک قلم تھا جو آگ کے مشعل کی طرح روشن تھا۔ اس کی روشنی پر عظیم سورج بھی رشک کر رہا تھا، اس کے سامنے ماہ تمام کی چمک بھی ماند پڑ رہی تھی۔ یہ مشعل، جیسے زرتشتی پہاڑوں سے نکلی ہو، اب اس شکستہ مندر کے ستونوں پر مقدس نشان بنا رہی تھی۔
جون کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی، اس میں ایک الگ دنیا جھلک رہی تھی، جیسے وہ ہر راز کو جانتا ہو، اور وہ خدا کا بھیدی ہر گتھی کو سلجھا چکا ہو۔ اُس کی شخصیت میں ایک ساتھ زرتشت کی پیشگوئی، یوحنا کی للکار، اور نطشے کے فوق البشر کی بے نیازی موجود تھی۔ وہ ایک شاعر تھا، ایک فلسفی تھا، لیکن سب سے بڑھ کر، وہ فرسودہ خیالات کا مصلح اور جمود شدہ سماج کا باغی تھا۔ اُس کے لبوں پر ایک طویل خاموشی تھی، مگر اُس کی خاموشی کا شور ہماری روحوں کو بے چین کر رہا تھا۔ اُس نے راموز کو بلند کیا، اور ایک لمحے کے لیے، ایسا لگا جیسے وقت رک گیا ہو، جیسے اس کائناتی نظم کے ہر لفظ میں آگ کی لکیریں آ گئی ہو، جو اندھیرے کے دل کو چیرنے کے لیے کافی ہیں۔ '' نیست پیغبمر و گر در بغل دارد کتاب''
"میں وہ ہوں، جو زمانے کے الاؤ پر روشنی کا وارث بنا ہے، میں ہی فوق البشر ہوں۔ نطشے کا خواب مجھ میں سانس لیتا ہے۔" اُس نے کہا۔ اُس کی آواز میں ایک عجیب سا آہنگ تھا، جیسے کوئی صدیوں کا چرواہا اپنی بھیڑوں کو اندھیری وادیوں سے نکال رہا ہو۔ "یہ راموز فقط نظم نہیں، یہ ایک قدیم عہدنامہ ہے، ایک لوحِ رجز۔" رجز کہتے ہوئے اُس کی آواز میں ایسا غرور تھا جیسے اُس نے خود زمانے کی تاریخ کو ترتیب دیا ہو۔
میں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اُس کی پیشانی پر وہی سرکشی تھی جو نطشے کے فوق البشر کی علامت ہے، اور اُس کے ہاتھوں میں وہ آگ تھی جو لَو میں بدل کر زمین کو نئے معنی دیتی ہے۔ اُس نے کہا، "یہ دنیا ایک پرانی جنگ کا میدان ہے، کرو کشیتر کا میدان ہے، جہاں اندھیرے نے ہماری تاریخوں کو جکڑ رکھا ہے۔ جہاں کورو (اندھیرے/جہالت) نے پانڈو (روشنی/شعور) کی سلطنت پر قبضہ جما رکھا ہے۔ جہاں گمراہی سب سے بڑا المیہ ہے، اور جمود و روایتی تقلید وبائی مرض۔ جبکہ یہ راموز اس بستی والوں کے لیے وہ کتاب ہے جس میں ہدایتیں، خواب اور امراض کا شفا ہیں۔ یہ اُن کے زنجیروں کو توڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ میری مقدس و پاکیزہ رمز و ہیکل کے خدام و جاروب کش، شبیب چرواہے اور بد روحوں کو قید کرے گی۔ جبکہ جحود مجنوں کی ملامتوں کو اور زہرلا کرے گی، مرداس و الیاس کی مدد کرے گی اور سفید روحوں کو تاریخ کا رخ پلٹنے کے لیے کاری ضرب عطا کرے گی۔ اور اپنی سرخ و سیاہ شعلہ زن نفرت کے ساتھ جھوٹے دعووں پر جھپٹ پڑے گی اور انھیں خاکستر کر دے گی"
جون نے اپنی آواز کو اور بلند کیا، جیسے وہ اس شکستہ مندر کے ستونوں سے پرے، وقت کی وادیوں تک سنائی دینا چاہتا ہو، جیسے وہ اِدھر ہی نہیں اُدھر بھی ہو۔ "یہ مشعل صرف آگ نہیں، یہ اُس حدّت کی کہانی ہے جس نے پتھروں کو پگھلا دیا، تہذیبوں کو بدل دیا۔ مگر دیکھو، اس بستی کے لوگ، ہمارے لوگ، عظیم سورج کو چھوڑ کر شراروں کو پوجتے ہیں، بلکہ اندھیروں کو پوجتے ہیں۔ انھیں زخم دینے والے ضربوں کو پوجتے ہیں۔ روشن ماہ کامل کو چھوڑ کر ٹمٹماتے ستاروں کو پوجتے ہیں۔ ان کی حیات کی شعلۂ گرامی سرد پڑ چکی ہے، ان کا احساس مر چکا ہے، اور ان کی تابناکی ماند پڑ چکی ہے کہ وہ اب اُن زنجیروں کو چومتے ہیں جنھوں نے اُنہیں قید کر رکھا ہے۔"
میں نے سر اثبات میں ہلایا، کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ زرتشتی آگ کے ذریعے ہر اس زبان کو خاموش کرتا گیا، جو اس کے سامنے دراز ہونے کی کوشش کرتا۔ اس کی آواز کی گھرج و ہیبت سے تمام آوازیں پناہ مانگ رہی تھیں۔ تمام بیرونی الفاظ مقامِ ادب کی خاطر خاموش ہو گئے۔ جبکہ حروف و جملے کی ساخت و عمارت زمین بوس عمارتوں کی طرح مسمار ہو چکی تھیں۔
جون نے راموز کو زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف دیکھا، جہاں ستارے بھی خوفزدہ لگ رہے تھے۔ پھر اس نے اپنی مشعل کو بلند کیا، اور اُس کی روشنی ہمارے اردگرد کے پتھریلے ستونوں پر لرزنے لگی۔ اُس روشنی میں اُس کے چہرے پر عجیب سا تاثر تھا۔ اس نے گرجتے ہوئے کہا "یہ لوحِ خطاب ہے، وہ الہام جو ہمیں اُس اندھیری وادی سے نکالے گا، اُن زنجیروں کو جلا دے گی جنھوں نے ہماری نسلوں کو غلامی کے خواب دکھائے ہیں۔ یہ ان تھکے ہارے خوابوں کو پھر سے تقویت بخشے گس اور میری اثبات کو ان کی بطالتوں سے ٹکرائے گا۔"
اُس نے راموز کو دوبارہ اٹھایا، اور اُس مشعل کو ہمارے درمیان گھمایا، جیسے ہمیں یاد دلا رہا ہو کہ یہ روشنی صرف اُس کی نہیں، یہ ہماری بھی ہے۔ "اندھیرا ہماری آزمائش ہے، مگر ہم روشنی کے وارث ہیں۔ یہ مشعل کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ ہم وہ باغی، جو ہر اندھیری رات کو ایک نئی صبح میں بدل دیں گے۔ ہم ہی جحود ہیں، جو بستیوں میں آگ لگا کر شعور کی نئی بستیاں آباد کریں گے۔"
اور اُس رات، اُس شکستہ مندر کے ستونوں کے درمیان، جون ایلیا کی مشعل ہماری روحوں کا حصہ بن گئی، اُس کا جنون ایک الہام بن چکا تھا، ایک ایسا الہام جو نہ صرف میرے کے لیے بلکہ تمام دریدہ ملبوس داد خواہوں کے لیے بھی روشنی کا ذریعہ بن گیا۔ اور ہم اُس کے ساتھ آگے بڑھتے گئے، اُس روشنی کو لے کر جو ہمارے ہاتھوں میں تھی، اُس شعور کو لے کر جو ہمارے ذہنوں میں تھا، اور اُس عزم کو لے کر جو ہمارے دلوں میں تھا۔
رات ختم ہوئی، مگر وہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ ہم ہر اندھیرے کے خلاف روشنی کے پیامبر بنے، اُس لوحِ رجز کے وارث، جو نہ کبھی جھکی، نہ کبھی ٹوٹی۔ اور یوں، جون ایلیا کی وراثت زندہ رہی، اُس مشعل کی طرح، جو کبھی بجھ نہیں سکتی۔ اور جون خود کو دفنانے کے لیے پھر سے زندہ ہوئے، خود اپنی جگر خون کر کے وہ اپنی تمام لاشوں کو کندھوں پر رکھ کر گرم و گندم گوں جوان رانوں، نرم و نازک گول پستانوں اور شگافِ آتشیں کا خون پینے کے لیے زمین کی گردشوں کا حساب پورا ہونے کی انتظار میں اپنے زندہ سینے میں دفن ہو گئے۔
الا یللی، الا یللی
تبصرہ لکھیے