ہوم << آزادی اظہار رائے کا درست تصور - محمد ابراہیم خان

آزادی اظہار رائے کا درست تصور - محمد ابراہیم خان

تاریخ انسانی کے اوراق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جب سے انسان نے فکر و شعور کی وادی میں قدم رکھا ہے اس نے جسم و جان کی آزادی کے ساتھ حریتِ فکر کے ترانے گائے ہیں۔ ابتداء سے ہی انسان اپنے حق اور ضمیر کی آواز برملا کہنے کیلئے مصائب برداشت کرتا آ رہا ہے۔ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مختلف ادوار میں ہمیں اخلاقی اقدار ، مذہب ، وحی اور باری تعالیٰ کے وجود کے منکرین تو مل جائیں گے مگر ایسا گروہ نہ مل سکے گا جس نے انسان کی تقریر و تحریر کی آزادی یا حریتِ فکر و شعور سے انکار کیا ہو۔

ابلاغ عام کے ذرائع کی ترقی نے آزادی اظہار کو انتہائی اہمیت بخشی ہے ۔ انسان کی عقلی قوتوں نے یہ سفر صدیوں میں طے کیا ہے ، مختلف صلاحیتوں کے حاملین اہلِ عقل و ذہانت کی قربانیاں کار فرما ہیں۔ یہ تمام تر قربانیاں تحریر و تقریر اور حریتِ فکر کی آزادی کیلئے دی گئی ہیں اور تاریخ گواہ ہے جو معاشرہ اپنے افراد کے تازہ افکار و نظریات اور خیالات و احساسات سے اپنے آپ کو محروم رکھتا ہے وہ بدامنی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی حکومت اور عوام کی آزادی اور وقار کا مظہر ہے۔ اس آزادی کا غلط استعمال غلط نتائج کیلئے راہ ہموار کرتا ہے اس لیے دنیا کے ہر معاشرے میں ذرائع ابلاغ پر حکومت کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، کچھ پابندیاں قانونی ہوتی ہیں کچھ تہذیب و روایات ہوتے ہیں کچھ اخلاقی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دستور اور قومی مفاد کے منافی آراء کو روکا جائے ، سماجی اقدار کا تحفظ ہو ، مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان رواداری قائم کی جائے۔

پروفیسر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں:
" دنیا کے ہر ملک کے دستور میں خواہ وہ آمرانہ ہو اشتراکی ہو یا جمہوری ، آزادی اظہار کی حفاظت و بقاء کی ضمانت دی گئی ہے ۔ لیکن قطعی آزادی نہ دنیا میں کبھی رائج ہوئی ہے نہ ہو گی ۔ ہر آزادی کے ساتھ کچھ پابندیاں ضرور ہوتی ہیں اور یہ نہ ہوں تو انسانی معاشرہ درہم برہم ہو جائے اور انسان انسان کو جینے نہ دے ۔ ان پابندیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن قائم رہے ، اخلاقی اقدار کو ٹھیس نہ پہنچے ، آزادی کا مطلب لاقانونیت یا نزاج نہیں ہوتا ، آزادی اپنے جلو میں کچھ حقوق لاتی ہے اور یہ ہمیشہ ذمہ داریوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ( حوالہ : فنِ صحافت ، پروفیسر عبدالسلام خورشید ، صفحہ نمبر : 247 )

آزادی ذمہ داری کا نام ہے۔ ایک منصفانہ سماجی نظام اخلاقی پابندیوں سے ہی عبارت ہوتا ہے کیونکہ پابندیاں عادلانہ نظام میں مفاد عامہ کیلئے ہی ہوتی ہیں تاکہ معاشرتی نظام درست خطوط پر قائم رہے، انفرادی اغراض کے بجائے اجتماعی مفاد آزادی کی محافظ ہے۔ جس طرح آزادی کے لفظ میں پسندیدگی کا پہلو ہے اسی طرح بےلگامی کے لفظ میں ناپسندیدگی کا عنصر شامل ہے۔

اسلام میں مادر پدر آزادی نہ کسی فرد کو حاصل ہے نہ کسی جماعت کو اور نہ ہی کسی خاص طبقے کو ۔ اسلام چند پابندیوں کے ساتھ ایک دائرہ کار کے اندر فرد ، جماعت اور اداروں کو آزادی دیتا ہے ۔ ان پابندیوں کا مقصد مفاد عامہ کا تحفظ ہوتا ہے ۔ تاکہ ذرائع ابلاغ یا آزادی اظہار کا غلط فائدہ اٹھا کر معززین یا شرفاء کی پگڑیاں نہ اچھالیں، جھوٹی اور بےسرد پا خبروں کی اشاعت سے معاشرے میں انتشار پیدا نہ کریں، دوسروں کی عزت نفس کا خیال اور اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ پروپیگنڈا اور وسوسہ پیدا کرنا شیطانی صفت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں پروپیگنڈا اور بدگمانی پہلا درجہ انسان کافر ہو جائے ۔ دوسرا درجہ مختلف اقوام اور طبقات کے درمیان انتشار پیدا ہو جائے۔ تیسرا درجہ خیال اور سوچ کا درجہ ہوتا ہے اور یہی درجہ فکری گمراہی کا سبب بنتا ہے۔

آزادی اور ذمہ داری دریا کے دو کنارے ہیں جو ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ جب ایک کنارہ ساتھ چھوڑ دے تو دریا کا پانی حد سے نکل کر سیلاب اور طغیانی کا باعث بنتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

آزادی اظہار رائے کا دینی تصور :
اسلام میں آزادی اظہار رائے کو ایک دینی فریضہ قرار دیا گیا ہے اور تلقین کی گئی کہ اس فریضہ کی ادائیگی میں انفرادی اور اجتماعی طور پر شائستگی سے کام لیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : " اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو ، صاف اور سیدھی بات کرو - ( الاحزاب)

دین اسلام نے نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنے کا فریضہ ہر مسلمان پر عائد کیا ہے۔ دینی تعلیمات میں خیال و رائے اور تنقید و احتساب کی بڑی اہمیت ہے اور اسلام کی تعلیمات میں آزادی اظہار رائے مسلمہ انسانی حقوق میں شامل ہے۔ دینی فکر پر قائم ریاست میں ذرائع ابلاغ کا مقصد نیکی کو فروغ دینا اور برائی کا انسداد کرنا ہے ، اسلام حریتِ فکر اور اظہار رائے کا حق ریاست کے تمام شہریوں کو اس شرط پر دیتا ہے کہ سچائی اور انصاف کو فروغ دیا جائے۔ اسلامی ریاست میں آزادی اظہار کئی شرائط کا تابع ہے مثلاً ایک دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کرنے ، غیبت کرنے ، پروپیگنڈا کرنے ، ایک دوسرے کی خلوت کی جاسوسی کرنے اور جھوٹ کی تشہیر کرنے کی ممانعت ہے۔

سیرتِ رسولﷺ سے ہمیں آزادی اظہار کا درس ملتا ہیں ۔ ایک غزوہ کا مشہور واقعہ ہے آپﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ فلاں مقام پر قیام کریں اور پڑاؤ ڈالیں ۔ صحابی نے دریافت کیا یہ ارشاد وحی سے ہے یا آپﷺ کی ذاتی رائے ہے؟ آپﷺنے فرمایا یہ میری ذاتی رائے ہے، تو صحابی نے عرض کیا پھر تو یہ منزل مناسب نہیں اس کے بجائے فلاں منزل مناسب ہو گی ۔ چنانچہ اسی رائے پر عمل کیا گیا۔ ( حوالہ : سیرت النبیﷺ جلد اول ، مولانا شبلی نعمانی )

آپ ﷺ کی مشہور حدیث ہے : جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ اظہار رائے کی تحسین کی اور اختلاف رائے رکھنے والے کی نیت پر کبھی شک نہیں کیا ۔ دین اسلام کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتا ہے ظلم و جبر کے معاشرے میں ہمیشہ نیکی اور عدل کو قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ذرائع ابلاغ سے درست فکر و نظر کی اشاعت کی جائے تاکہ ذرائع ابلاغ سچ اور انصاف کے نمائندہ بن جائیں اور قومی زندگی کے تمام شعبوں پر احتساب و تنقید کا عمل قائم ہو جائے جس کا مقصد اصلاحی اور تعمیری ہو تاکہ مسائل کی نشاندہی کے بعد تعمیر و اصلاح کا کام کیا جا سکے۔

دینی تعلیمات میں آزادی اظہار رائے کا درست تصور یہ ہے کہ اخلاقی اقدار ، تہذیب و روایات کو مدنظر رکھا جائے ۔ حق کی حمایت کی جائے اور جھوٹ ، باطل کی مخالفت کی جائے۔ ہر موقع پر حق و صداقت اور انصاف و دیانت سے کام لیا جائے۔ معاشرے میں مختلف آراء کا اظہار مکالمہ کی صورت میں ہونا چاہیے تاکہ رواداری کی فضا قائم رہے ۔ رواداری کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے فکر و نظر پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کے افکار و نظریات کا احترام کیا جائے گو کہ دینی تعلیمات میں آزادی اظہار رائے اور شخص احترام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اور جب بات کہو تو انصاف کی بات کہا کرو خواہ معاملہ اپنے رشتہ داروں کا ہی کیوں نہ ہو - (الانعام )