ہوم << ارض فلسطین تاریخ کے جھروکوں سے - جنید احمد خان

ارض فلسطین تاریخ کے جھروکوں سے - جنید احمد خان

ارض فلسطین جغرافیائی لحاظ سے مغربی ایشیا، دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے۔ 1020 قبل مسیح میں یہاں بنی اسرائیل کی قوم آباد تھی۔ اسلامی تاریخ کے مطابق بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام قابل ذکر ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو موجودہ اسرائیلی قوم اپنا نبی مانتی ہے۔

330 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے یہاں پر اپنا تسلط جمایا، اور یوں 234 قبل مسیح میں ارض فلسطین پر رومی سلطنت کا آغاز ہوا اور پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مبعوث ہونے کے بعد یروشلم عیسائیت کا مرکز ٹھرا۔
571 عیسوی میں آخری نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یروشلم مسلمانوں کا قبلہ اول ٹھرا، 636 عیسوی میں اسلامی سلطنت نے جنگ یرموک کے دوران ارض فلسطین پر فتح سمیٹی اور یوں یروشلم پر اسلامی پرچم لہرایا گیا۔661 عیسوی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی تاج پوشی یروشلم میں کی گئی، 691 عیسوی میں گنبد صخرا کی تعمیر ہوئی، جسے ڈوم آف راک بھی کہا جاتا ہے، 750 عیسوی میں خلافت امیہ اختتام پذیر ہوا اور فاطمی خلافت کا آغاز ہوا، اور یوں ارض فلسطین فاطمی خلافت کے زیر تسلط آیا۔
1030 عیسوی میں عظیم ترک فارسی سلطنت سلجوق نے فلسطین کو فتح کیا، جن کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔1098 عیسوی میں فاطمی سلطنت نے ایک بار پھر سلجوق سلطنت سے ارض فلسطین چھین لیا۔

گیارہویں صدی عیسوی کے دوران مشنری اور عیسائی تبلیغ عروج پر تھا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی اور یوں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1099 عیسوی میں ارض فلسطین ارض مقدسہ سمیت مسلمانوں کے ہاتھ سے گیا اور عیسائیوں کے زیر تسلط آیا۔
1187 عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے ارض مقدس کو عیسائیوں کی چنگل سے آزاد کیا، اور یوں القدس پر اسلامی پریرا لہرانے لگا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا ان کو مزہبی آزادی دی اور ان کے حقوق کا خیال رکھا،
1260 عیسوی میں منگولوں نے تخت بغداد کو الٹ دیا اور عربوں کی خلافت کو تہس نہس کر دیا، ارض مقدسہ بھی ان کے زیر تسلط آیا، عرب خلافتوں کے بعد 1099 عیسوی میں مسلمانوں کی ایک اور عظیم خلافت پروان چڑھی جسے تاریخ میں خلافت عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، خلافت عثمانیہ رفتہ رفتہ وسیع ہوتی گئی اور 1516 عیسوی میں ارض فلسطین بھی خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط آیا، خلافت عثمانیہ 1918 عیسوی تک قائم رہی جس کا خاتمہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہوا۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت عثمانیہ کا اختتام ہوا، اس دوران برطانیہ نے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر جرمنی اور خلافت عثمانیہ کو شکست سے دوچار کیا اور یوں ترکوں کی عظیم سلطنت کا خاتمہ ہوا اور ساتھ ہی خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط علاقوں کے حصے بخرے کرنا شروع کر دئیے، حجاز مقدس کو السعود اینڈ فیملی کے حوالے کر دیا جس کے بعد حجاز مقدس کا نام بھی تبدیل ہوا اور السعود کے مناسبت سے السعودیہ رکھ دیا گیا۔
اسی طرح ارض فلسطین کا معاملہ آیا، تو لیگ آف نیشن کے توسط سے یہ علاقہ تاج برطانیہ کے براہ راست کنٹرول میں چلا گیا، اور ارض فلسطین پر خلافت عثمانیہ کا 400 سالہ دور اختتام کو پہنچا۔

فلسطین کے مستقبل کو لے کر برطانوی راج نے لیگ آف نیشن کی ایما پر 1917 میں بالفور ایگریمنٹ کروایا جس نے ارض فلسطین کا اختیار تاج برطانیہ کے سپرد کیا اور ساتھ ارض فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، اس اعلان کے ساتھ ہی بجانب فلسطین دنیا بھر سے صیہونی نقل مکانی کی ابتدا ہوئی، یہ فیصلہ عربوں اور فلسطینیوں کے لئے ناقابل قبول تھا اور انہوں نے اسرائیلی ریاست کو یکسر مسترد کردیا۔
اس تصفیے کو حل کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ نے 1947 میں اپنا کردار ادا کیا اور ارض فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا یعنی ریاست اسرائیل و ریاست فلسطین، عربوں نے ریاستی تقسیم کا یہ منصوبہ مسترد کردیا جبکہ صیہونی قوتوں نے اس کا خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی مئی 1948 کے دوران اس کو آزادی اسرائیل کے طور پر ڈیکلیر کر دیا اور یوں فلسطین پر برطانوی کنٹرول کا بھی اختتام ہوا۔

سن 1967 کے دوران 6 دنوں پر محیط ایک اور عرب، اسرائیل جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں فلسطین کے مزید حصے اسرائیل کے زیر کنٹرول آ گئے اور عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سن 1993 میں اوسلو امن معاہدہ ہوا جس کے تحت فلسطین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کو اسرائیل نے تسلیم کیا، اس معاہدے کے تحت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں دیا گیا۔
اوسلو معاہدہ بھی خطے کے حالات میں بہتری لانے سے قاصر رہا اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان معرکہ آرائی جاری رہی۔
سن 2007 کے دوران حماس ایک ملٹنٹ ونگ کے طور پر ابھری اور فلسطین میں فلسطین اتھارٹی کو چیلنج کیا اور اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہوئی۔
موجودہ تازہ جنگی صورتحال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کہ عالمی امن، انسانیت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے کسی عظیم چیلنج سے کم نہیں ۔