ہوم << تادیر سحر طاری رہے گا-ثمینہ سید

تادیر سحر طاری رہے گا-ثمینہ سید

کتاب:دوسرا آدمی
مصنف:عاصم بٹ

شیکسپئیر نے کہا تھا کہ” دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب اداکار۔۔۔۔اپنا اپنا کردار ادا کرتے جاتے ہیں اور زندگی کے سٹیج سے اترتے جاتے ہیں۔“

ہم لکھنے والے ذرا گہرا سوچتے ہیں اپنے کردار کی کئی پرتیں اور جہتیں بنا لیتے ہیں ہم مرنے سے پہلے تو کیا مرنے کے بعد بھی مرنا نہیں چاہتے۔تو زندہ رہنے کے لیے زندہ حوالوں کی ضرورت ہے۔زندہ رہ جانے والا حوالہ قرطاس پہ لکھا لفظ ہے۔لفظ میں جتنی جان اور انفرادیت ہوگی وہ اتنا ہی تادیر اثر رکھ پائے گا۔ میری اور کتابوں کی دوستی چل رہی ہے یہ زندگی کے سفر کا رخت سفر سمجھیے۔ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی رخت سفر کی گٹھڑی سے آج ایک بہترین کتاب نکلی ہے ”دوسرا آدمی“یہ عاصم بٹ صاحب نے اپنے روزنامہ جنگ کے ساتھ منسلک ہونے کے دوران کچھ عظیم اور معروف ادیبوں اورشاعروں کے انٹرویوز کیے ہوئے ہیں۔اس کتاب کی اشاعت اول انیس سو بانوے میں ہوئی۔ میرے ہاتھ نجانےکہاں سے لگی ہوگی لیکن ان دنوں فرصت سے یہ کتاب پڑھنا نصیب ہوئی۔تو مجھے پیٹ اور نیت دونوں کی سیری کا احساس ہورہا ہے۔اس کتاب کے بارے میں خود عاصم بٹ کہتے ہیں۔

”دوسرے آدمی، سے مکالمہ اندھے کنویں میں سوئی جیسی کوئی مہین شے تلاش کرنے کے مترادف عمل ہے۔یہ ایک طرح کی مہم جوئی ہے۔میں نےاس مہم کو سر کرنے کاقصد کیا ہے۔میں اس اندھے کنویں میں اتر جاتا تھا اور دونوں بازوؤں کو پھیلا کراپنے ہرطرف سے جو کچھ سمیٹ پاتا ، اسے سمیٹ لیتا تھا۔یوں بہت سارے کاٹھ کباڑ ، فائدہ مند اور بےفائدہ اسباب میں وہ سوئی جیسی مہین شے بھی چلی آتی تھی۔“ یقین جانیے عاصم بٹ صاحب کے قریب جو وہ مہین شے تھی وہ بہت نایاب ہے۔ان انٹرویوز میں بیس اہم شخصیات شامل ہیں۔مجھے تو بیس کتابیں پڑھنے جتنا سرور اس کتاب کے پڑھنے سے ملا ہے۔وہ شخصیات اپنے اپنے عہد کے روح رواں تھے ان کے مداحین اور متنازعہ دونوں اطراف کے تجزیے دلچسپ ہوا کرتے تھے۔

بیس زندہ کہانیاں میرے سامنے ہیں۔ میں اس کتاب کی یاد کو اپنے ذہن کے قرطاس پر نقش کرنے کے لیے کچھ باتیں اس مضمون کی صورت میں لکھ رہی ہوں۔ زندگی کی بےثباتی کا احساس سوا ہوگیا کیسے کیسے جواہر نیست ہوئے تو ہم کیا چیز ہیں۔ دوسو اکتیس صفحات کی یہ کتاب جناب عاصم بٹ نے اپنی بھانجی ایمان کے نام کی ہے۔جو اب ماشاءاللہ جوان ہوگی۔میں نے عاصم بٹ صاحب کے ناول بھی پڑھے ہیں لیکن اس کتاب کا فلیور کچھ الگ ہی ہے۔ پہلی شخصیت احمد ندیم قاسمی ہیں۔ان کی خاکہ نما تصویر ایک صفحے پر نقش ہے پھر ایک نوٹ اور پھر انٹرویو ۔۔۔ہر لفظ خاصے کی چیز ہے۔ لیکن میں آپ کو جھلکیاں ہی دکھا سکتی ہوں۔عنوان ہے ”مے خانوں کا محتسب“. ”میں نے زندگی میں بس ایک محبت کی،میں دل پھینک قسم کا انسان نہیں ہوں۔بس ایک محبت کے بعد کوئی نظر میں جچا ہی نہیں“

میں اور باقی سب لوگ ان سب کے بارے میں بہت کچھ سنتے اور جانتے ہیں لیکن اس کتاب کا لطف لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فتوے جاری نہ کریں۔بلکہ ان شخصیات کے ان غیررسمی پہلوؤں کا مزہ لیں جن کا احاطہ مصنف نے کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں ہمارے ادیبوں کی ایک پوری کھیپ دیہاتوں سے آئی ہے۔اس لیے ان کے پاس فطرت کا خالص انگ تھا۔احمد ندیم قاسمی نے بتایا کہ وہ گاؤں کے بچوں جیسے ہی تھے وہی کھیل وہی عام سی تعلیم اور لکھنے کی تربیت ان کے چچا کی وجہ سے نمو پائی جو انہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔پڑھتے پڑھتے وہ لکھنے لگے۔پہلی نظم اپنے والد کی وفات پر لکھی جو چچا نے چھپوا بھی دی۔محمد خالد اختر جو ان کے دوست تھے ان کی ترغیب اور انگریزی ادب سے لگاٶ کروانے کو وہ افسانہ کی طرف آنے کا جواز قرار دیتے ہیں۔پھر کیسے معرکہ آراء کام کیے۔۔

”ایک سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں۔عموما بڑھاپے کے ساتھ ساتھ مزاج میں نرمی اور ٹھہراؤ ا جاتا ہے۔لیکن میرا معاملہ مختلف ہےپھر میں یوں سوچتا ہوں کہ زمانہ بہت بدلہ ہے یہ صنعتی انقلاب ہےجس نے دنیا کے ہر گوشے میں تمام اخلاقی اور تہذیبی اقدار اور روایات درہم برہم کر دیا ہے۔بسا اوقات مجھے محسوس ہوتا ہےجیسے یہ سب کچھ کسی پہلے سے سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہوا ہےجیسے کوئی جان بوجھ کر ہماری باہمی محبت بھائی چارے احترام اور لحاظ کو تباہ کر رہا ہے۔“

اس کے بعداشفاق احمد ہیں جن کے بارے میں مختلف اور نرم گرم آراء میرے سامنے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں اس انٹرویو میں عاصم بٹ صاحب نے جو غیررسمی طریقے سے ان شخصیات کے گھروں میں جاکے ان کے ڈراٸنگ روم میں ٹیپ ریکارڈر کابٹن آن کر کے ان کے اندر دوسرے آدمی سے بات کی ہے وہ ہر چیز سے ماوراء اور قیمتی ہے۔وہ اشفاق احمد کی زبانی ان کے گھرانے ان کی تعلیم ،ساتویں جماعت میں ایک رسالہ” علم الوقیع“ کے نام سے طباعت کرنا اور ایم اے کرنے کے وقت بانو قدسیہ کے کلاس فیلو ہونا پھر ذہانت کےاس مقابلے کو اشفاق احمد نے محض ہم آہنگی کہا کہ محبتیں تو وہ پہلے کرچکے تھے تین بار ۔یہ تو فیصلہ کیا کہ شادی کر لیتے ہیں۔کہتے ہیں۔

”ہم لوگوں نے اپنی اقدار کو چھوڑ دیا جو ہمیں آپس میں باندھ کے رکھتی تھیں۔شروع شروع میں ہر شادی میں معمولی تنازعے ہوتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میاں بیوی ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہوجائیں۔اگر شادی کے بعد ابتداٸی عرصہ ایک دوسرے کی ہربات برداشت کی جاٸے اورتعلق کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاٸے تو پھر بڑھاپا ایسے جوڑے کے لیے ایک نعمت ہوتا ہے۔“

بابوں کے پاس جانے کے بارے میں بھی نہایت منطقی جواب دیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم مذہب کی طرف زیادہ جھکنے لگتے ہیں شاید اپنی ہمت پر بھروسہ کم ہونے لگتا ہے۔اور یہ بابے بھی ان پڑھ ہونے کے باوجود جاہل نہیں ہوتے انہوں نے ایک ہی جگہ توجہ مرکوز کرکے وظیفے اور لگن لگاٸی ہوتی ہے۔ایسی ہی بےشمار باتیں جو زندگی کے تجربات کانچوڑ ہیں ان انٹرویوز میں ہمیں ملتی ہیں۔ فہرست میں امجد اسلام امجد ہیں جنہوں نے بہت توانا اور یادگار ڈرامے لکھے لیکن وہ اپنی شاعری سے محبت کرتے تھے۔خود بھی کہا کہ شاعری کم ہے لیکن اس میں میرا دل دھڑکتا ہے۔امجد اسلام امجد اگر شاعر نہ ہوتے تو کرکٹر ہوتے یہ دلچسپ بات تھی۔

پھر انور سجاد ہیں ۔میرے پسندیدہ افسانہ نگار اور شخصیت کے لحاظ سے بھی وہ اور ان کی بیگم زیب رحمان ہمہ جہت ہیں۔ڈرامہ تھیٹر لکھنے ،اداکاری کرنے اور افسانہ نگاری کے علاوہ استاد بھی رہے۔ہر دور میں بہت سے شاعر ادیب اساتذہ رہے ہیں۔آج بھی ایسا ہی ہے۔ انور سجاد نے کہا کہ ”شاعری کا رومانٹک نوشن جو ہے کہ ہروقت خیالات میں ڈوبے رہنا اور ہروقت شعری فکر میں غلطاں رہنا تو یہ سب غلط ہے میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔“ ڈاکٹر انور سجاد کو موسیقی اور کتھک رقص سے بھی لگاٶ تھا خود کرتے بھی رہے لیکن ہمارے معاشرے کی گھٹن اور رویے ان فنون لطیفہ کے قاتل ہیں۔ سب سے مثبت اور حوصلہ افزا بات اس کتاب کے حوالے سے سامنے آئی وہ یہ ہےکہ یہ تمام شخصیات نہایت علمی اور عملی زندگی گزارتی رہیں۔ کسی نے بھی بےروزگاری یا جہالت کو کیفیت کی طرح نہیں پہنا اوڑھا۔

بانو قدسیہ ”آپے رانجھا ہوٸی “ کے عنوان سے موجود ہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں وہ محبت میں درویش ہوگٸیں مٹ گٸیں۔مجھے لگتا ہے یہ محبت انہیں خود سے تھی جس کے لیے انہوں نے اپنے سارے شوق پورے کیے۔تمام علم و ہنر سے اپنے وجود کو آراستہ کرتی رہیں۔ تنازعہ میں نہیں پڑیں ورنہ انہیں گھر میں ہی دبا دیا جاتا سیانی عورت تھیں۔ کہتی ہیں۔ ”بنیادی طور پر میں ایک عام عورت ہوں۔میں نے خود کو کبھی خاص سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔بلکہ عام لوگوں میں بیٹھ کر کام کرکے خوش رہتی ہوں۔ پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والی اور بحث وتمحیص سے دوسروں پر اپنی علمیت کا رعب نہیں جھاڑتی۔اس سے مجھے چڑ ہے میں بی کلاس عورت ہوں اور بی کلاس کام کرکے خوش رہتی ہوں۔“ حالانکہ وہ بی کلاس عورت نہیں تھیں لیکن کیا جاتا ہے جو ایسا کہتے رہیں اور اپنے سب کام احسن طریقے سے اے کلاس کرجاٸیں۔

‎”شب بیدار “ کے عنوان کے ساتھ جیلانی کامران ہیں۔ بہت محترم اور ہردلعزیز شخصیت۔وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ سوچنے اور غور کرنے کا عنصر ان کے ساتھ بچپن سے ہے۔خود کو ایک حساس بچہ کہتے ہیں۔لکھنے کو ایک نشے کی طرح اپنائے رکھا وہ تجربہ اور تجزیہ مشاہدے کے ساتھ کرنے کے قائل تھے۔کہتے ہیں۔ ”نقاد جب کسی ادبی شہ پارے کا تجزیہ کرتا ہے تو دراصل اس وقت وہ خود بھی اسی تخلیقی بلندی پر کھڑا ہوتا ہے۔جس معیار پر تخلیقی شہ پارہ ہے۔“ ڈاکٹر سلیم اختر جیسی قدآور شخصیت کا انٹرویو کرتے ہوئے عاصم بٹ صاحب پورے تخلیقی عروج پر محسوس ہوئے لکھتے ہیں کہ باتیں ہوتی رہیں میں انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے اس موڈ کا منتظر تھا جب وہ مجھے ”دوسرے آدمی“ سے ملنے دیں۔بٹ صاحب نے ہر شخصیت کا خاکہ اور ماحول کی جزئیات کو بھی قدم قدم پر تخلیقی پیراہن پہنائے ہیں جو کتاب کا اصل حسن ہے۔

شہرت بخاری ہیں ”خانہ نشیں “ کے عنوان میں ۔جن کا اصلی نام سید محمد انور تھا وہ ایک خلوت پسند شخص تھے۔ اہم بات یہ بتائی کہ ”میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو میں دیکھتا تھاکہ استاد لمبے لمبے گاٶن پہنے ادھر ادھر چل پھر رہے ہیں مجھے یہ لباس بہت بھلا لگتا تھااور میں سوچتا تھا کہ میں بھی ایک استاد بنوں گا اور کالے گاٶن پہنوں گا۔“ وہ لندن بھی سات سال رہے لیکن کہتے تھے اپنا وطن تو اپنا ہے اس لیے لوٹ آیا۔کھانے پینے کےشوقین نہیں تھے لیکن بہت صفائی پسند تھے چمکتے سفید کپڑے پسند تھے۔ شہزاد احمد کے ساتھ یہ انٹرویو بہت دلچسپ رہا۔سوالوں کی فہرست بھی ہمراہ رہی لیکن اکثر جیب میں یا گھٹنے پر ہی محو استراحت رہی۔ بہت بڑی بات جو شہزاد احمد نے کہی۔

”ادیب survive کرسکتا ہے مگر اس میں کچھ محنت لگتی ہے اور میں نے یہ محنت کی ہے۔میں جو آج آپ کے سامنے بطور شاعر بیٹھا ہوں تو میں نے دو طرح کی محنت کی۔ایک تو خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی ریاضت اور دوسری معاشی مصروفیات کے ریلے تلے دبنے سے شاعر کو بچانے کی ریاضت “. پھر صفدر میر ہیں۔شاعر،باکسر،صحافی،اداکار اور استاد جن کی ذات کے حوالے رہے۔ ضمیر جعفری جن کو ہر دور کا زندہ حوالہ کہا جائے گا۔فوج میں رہے دوسری جنگ عظیم میں شامل تھے۔ کہتے ہیں، ”شاعر میری ذات میں خاصا تنومند رہا ہے یہ میرے ساتھ آکاس بیل کی طرح لپٹا رہا ہمیشہ ۔جوں جوں یہ پھلتا پھولتا گیا دوسرے کمزور پہلو مرتے گئے۔“

”ہوشیارپور کا منیم “ کے عنوان سے طفیل ہوشیارپوری کی زندگی،جذبات اور ریاضتوں کی باتیں انہی کی زبانی ہیں۔وہ شاعری کے بارے میں کہتے ہیں۔ ”دراصل شاعر جو ہے وہ ماں کے پیٹ سے ہی شاعر پیدا ہوتا ہے۔جب وہ شعر نہیں کہہ رہا ہوتا تب بھی وہ شاعری کررہا ہوتا ہے۔“ ظہیر کاشمیری نے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”معاملہ یوں ہوتا ہےکہ ادیب یا تخلیق کار یا ایک انقلابی سوچ رکھنے والاجب عملی میدان میں آتا ہے تو عموماً جو ماحول اور احباب میسر ہوتے ہیں۔وہ اس کے آئیڈلز کے برعکس ہوتے ہیں۔اس شخص کو اپنی بقا کی صبر آزما جنگ لڑنی پڑتی ہے۔“

عطاالحق قاسمی صاحب ماشاءاللہ حیات ہیں۔ادب گرہوں اور تنظیموں میں بٹ کر اپنااصلی مقصد اور چہرہ کافی حدتک بگاڑ چکا ہے۔ ہر کوئی اپنی رائے بنا کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں مقید ہے۔اس لیے ان کے بارے میں بھی بےشمار آراء سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ لیکن جو کام اور ادبی خدمات ہیں وہ اپنی جگہ ہیں۔”گرین کارڈ ہولڈر “ کے عنوان سے یہ انٹرویو بھی خوب دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کے بہت سے خواب اور آئیڈیلز تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے دوحصوں میں منقسم رہے ہیں۔دن بھر شام ہونے تک دوست،دنیا اور گھر بار سب جھمیلے لیکن رات کو میں نے زندگی بھر ہررات ضرور کچھ لکھا ہے۔“مزاح نگار ہیں۔کالم لکھتے ہیں شاعری کرتے ہیں اور دنیا بھر میں گھوم پھر چکے ہیں۔

ہم قتیل شفائی تک آگئے ہیں جنہوں نے کثرت سے فلمی شاعری کی ۔وہ دوستوں کے ہاتھوں بہت پیسہ اور اعتماد لٹانے کے بعد شکستہ دل کے ساتھ فلمی شاعری کی طرف آئے اور پھر بہت ساری کامیابیاں سمیٹیں۔ کشور ناہید اپنے رعب داب کے ساتھ حیات ہیں اس کتاب میں ڈھیروں دلچسپ واقعات اور معرکے رقم ہیں۔کہتی ہیں
”کشور ناہید کے لیے یہ بات اہم نہیں کہ اس نے روایات سے بغاوت کی۔یا نہیں کی اہم یہ ہے کہ اس نے وہی کیا جو کچھ کرنا چاہا۔“

منو بھائی جنہیں ہکلا کر بولنے کی وجہ سے منیر تھتھاکہا جاتاتھا اور دوست یار مذاق اڑاتے تھے۔اپنی معرکہ آراء طبیعت اور محنت سے ہردلعزیز شخصیت بنے۔شاعری اور کالم ان کا خاص حوالہ ہیں۔ منیر نیازی اپنے بےنیاز لہجے کے ساتھ انٹرویو کی سطروں سے چھلک رہے ہیں۔ ذہین اور بےباک انداز کے حامل بہت پیاری شخصیت کے مالک منیر نیازی اپنی ناکامیوں کامیابیوں اور محبتوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ان کا تلخ لہجہ انہیں مقبول بناتا ہے۔نرالی سی باتیں کرنے والے منیر نیازی یہاں بھی حیران کردیتے ہیں۔ مرزا ادیب ہیں اپنی زندگی کے تلخ و شیریں سے نبرد آزما دوسرے آدمی سے ملواتے ہوئے۔

آخر میں میرے پسندیدہ ممتاز مفتی ہیں۔ جنہوں نے زندگی کو کچھ الگ ڈھب سے دیکھااور لکھا۔ علی پور کا ایلی لکھنے والا ممتاز مفتی بعد میں کوئی اور روپ دھار کر جینے لگا۔ ممتاز مفتی نے کہا ”میرا خدا میری ماں ہے۔اس نے مجھے جنا ہے جیسے ماں بچے کو جنتی ہے۔وہ مجھ سے محبت کرتا ہے میرا خدا ۔۔ جیسے ماں اپنے بچے سے کرتی ہے۔“ الکھ نگری والا ممتاز مفتی کوئی اور تھا۔ لبیک والا کوئی اور پھر اسے ادبی لوگ اوکھے لگے تو اس نے ”اوکھے لوگ “ کے نام سے اپنے ادبی ساتھیوں کے خاکہ نما انٹریوز کیے ہیں ۔ مجھے اسی کتاب کو پڑھ کے لگا تھا سوانح عمری ،خاکے اور انٹرویوز پڑھنے کا لطف ہی الگ ہے۔

آج اس کتاب دوسرا آدمی نے میری یہ رائے مزید پختہ کردی۔ میں نے اپنے گھر کے صحن کی گرمی میں بیٹھ کر یہ کتاب پڑھنا شروع کی تاکہ میرا دھیان گرمی اور بجلی سےہٹ سکے۔لیکن اس کتاب کی فسوں خیزی نے رات دو بجے تک مجھے باندھ کے رکھا اوروقفےوقفے سے اسے مکمل کر کےہی دم لیا۔اس کے مزیدار سکیچز ،دلچسپ منظرکشی اور بیس زندگیوں میں جھانکنے کے بعد میں اس قدر نہال ہوں کہ پچھلے تین دن سے یہ مضمون لکھ رہی ہوں ۔

مجھے نہیں لگتا جیسا سرور میں نے محسوس کیا آپ اس مضمون کے اختصار میں اتنا کر پائیں گے کتاب ڈھونڈیں اور ضرور پڑھیں۔ لیکن میرے لیے دعا ضرور کریں کہ میں نے طبیعت کی نازک مزاجی کے باوجود آپ پر اس خزانہ نما کتاب کے دریچے کھولنے کی کوشش کی ہے۔

Comments

Click here to post a comment