ہوم << وقت کی قدر اور کامیابی کی راہیں - عادل لطیف

وقت کی قدر اور کامیابی کی راہیں - عادل لطیف

جب کوئی طالب علم یہ کہتا ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے ایک بادشاہ اپنے خزانے پر بیٹھا فاقوں کی شکایت کر رہا ہو۔ وقت جو زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے، اس کے پاس وافر ہے، مگر اس نے اس کی قدر نہیں کی۔ وقت سمندر کی مانند بہتا چلا جاتا ہے اور جس نے اس کی موجوں پر سوار ہو کر علم وہنر کی مملکتوں کو فتح نہ کیا، وہ فقط خس وخاشاک کی طرح کناروں پر پڑا رہ گیا۔ جوانی کی بجلی، قوتِ ارادی کا سورج اور شوق کی بادِ صبا یہ وہ نعمتیں ہیں، جنہیں دولت کے انبار بھی نہیں خرید سکتے، لیکن جب یہ مواقع بے مصرف رہ جائیں تو عمر کے موسم خزاں میں صرف حسرتوں کے زرد پتے ہی ہاتھ آتے ہیں۔

سب سے اہم چیز جس سے طالب علم کا تعلق ہونا چاہیے، وہ علم کا شجر ہے، جس کی جڑ مطالعہ میں پوشیدہ ہے۔ مطالعہ وہ پانی ہے جو اس شجر کی جڑوں کو سینچتا ہے، مگر صرف مطالعہ کا کافی ہونا ایسے ہی ہے جیسے ایک پودا صرف زمین میں دب جائے اور اُسے روشنی، ہوا اور خوراک میسر نہ ہو۔ جدید علوم اور مہارتوں کا سورج اس شجر کو پروان چڑھاتا ہے۔ کمپیوٹر، انگریزی، گرافک ڈیزائن جیسے ہنر سیکھنا علم کو عملی دُنیا میں لا کر اس درخت کو تناور بناتا ہے۔

ورزش کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جسم وجان کا تعلق ایسے ہے جیسے روح اور بدن کا۔ جسم اگر زنگ آلود ہو جائے تو ذہن کے کمالات بھی دھندلا جاتے ہیں۔ ورزش جسم کو چاق وچوبند رکھتی ہے اور یہ چستی ذہن کو بھی تیز رکھتی ہے جیسے سمندر کی ٹھنڈی ہوا کشتیاں تیزی سے ساحل کی طرف دھکیلتی ہے۔

فارغ وقت کو تخلیق کے چشمے سے سیراب کرنا بھی لازم ہے۔ جس طرح ایک فنکار اپنے برش سے کینوس پر زندگی بکھیر دیتا ہے۔ طالب علم بھی اپنی سوچوں اور تحریروں کو نکھار سکتا ہے۔ تحریر کو ادب کا زیور پہنایا جائے۔ خیال کو شعور کا موتی بنایا جائے، تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔

اللہ کی یاد اور دعا وہ خوشبو ہے جو دل کو معطر کرتی ہے اور روح کے ویرانوں کو گلزار میں بدل دیتی ہے۔ جب دل ذکرِ الٰہی سے روشن ہو تو ہر کام میں برکت شامل ہو جاتی ہے اور ہر لمحہ معنی خیز ہو جاتا ہے۔

زندگی کے باغ میں ترتیب اور منصوبہ بندی کا بیج بونے سے وقت کے پھول کھلتے ہیں۔ ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ منصوبہ بندی وہ کُھلونے ہیں جو بگڑی ہوئی زندگی کو درست راہ پر لے آتے ہیں۔ جب ہم اپنی زندگی کو ایک منظم طریقے سے گزارتے ہیں تو وقت کی بے خبری کا کوئی موقع نہیں ملتا۔

زبانیں سیکھنا اس دور میں نئی سرحدوں کو عبور کرنے جیسا ہے۔ ایک سے زیادہ زبانوں پر عبور رکھنے والا انسان ہر دروازے پر دستک دے سکتا ہے اور ہر علم کی کھڑکی سے جھانک سکتا ہے۔ زبانوں کا علم وہ خزانہ ہے جو انسان کو دُنیا کے ہر کونے میں رسائی فراہم کرتا ہے۔

آخری اہم بات یہ ہے کہ اپنے علم وہنر سے متعلق لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے ان کے تجربات سے سیکھا جائے۔ یہ ایسے ہے جیسے کسی تجربہ کار ملّاح کے ساتھ بیٹھ کر سمندر پار کا سفر کرنا۔ وہ جن طوفانوں کا سامنا کر چکے ہیں، ان کی کہانیاں سن کر ہم ان سے بچ سکتے ہیں اور کامیابی کی طرف سفر تیز تر کر سکتے ہیں۔

ان سب باتوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ فارغ وقت کو بے قدری سے بچا کر اسے علم، ہنر، اور عبادت کے زیور سے آراستہ کرنا۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں کامیابی اور سکون کی منزل تک لے جائے گی۔