عمرِ عزیز برف کی مانند زمانے کی دھوپ میں پگھل رہی ہے. وقت کا قافلہ ہر لمحے رواں دواں ہے۔ کتابِ لا ریب نے انسان کی پیدائش سے بڑھاپے تک کا نقشہ کس قدر فکر انگیز انداز میں کینچھا ہے، فرمایا کہ آخرکار ہم انسان کو خلقت میں لوٹا دیتے ہیں، گویا وہ بڑھاپے سے بچپن کا سفر کرتا ہے، مگر اس بار ضعف و ناتوانی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں، ان گنت امراض حملہ آور ہوتے ہیں، اپنا وجود بوجھ لگنے لگتا ہے، ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔
کتنے لوگ ہیں جو اِس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پیدائش کے وقت انسان اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے مگر شعور کی آنکھ کھلنے میں کافی دیر لگتی ہے بلکہ بعض اوقات تو غفلت کے پردے میں ہی عرصہ حیات گزر جاتا ہے۔
اور کتنے ہی ایسے بھی ہیں جو غیر ضروری جستجو میں لگے رہتے ہیں، پوچھا گیا قیامت کب آئے گی، فرمایا جب بھی آئے، ایسی جستجو بے سود ہے۔ تم نے دستیاب لمحات میں اُس گھڑی کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے، یہ اہم ہے۔
قرآن آدمی کو دعوتِ مشاہدہ دیتا ہے، مثلا موسمی تغیرات پر غور کرو کہ بہار آتی ہے، چار سُو زندگی کی لہر پھوٹ پڑتی ہے، دھرتی سبز چارد اوڑھ لیتی ہے اور فضا معطر ، پرندوں کی آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں، غرض چار سُو زندگی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ اور پھر یکا یک وقت اپنی کروٹ بدلتا ہے۔ خزاں آ ڈیرے ڈالتی ہے۔ زندگی کا قافلہ رخصت ہوتا ہے۔ رونق جاتی رہتی ہے۔ ہر طرف موت جیسا سکوت طاری ہوجاتا ہے۔ فرمایا یہی حال انسانی زندگی کا ہے۔ انسان بھی جوانی میں بہار کے مزے لیتا ہے۔ بالآخر بڑھاپے کی صورت میں خزاں دستک دیتی ہے۔ آدمی موت کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ لیکن کتاب شکوہ کناں ہے کہ حقیقت کھلی کتاب کی طرح انسان کے سامنے ہے پھر بھی وہ سنبھلتا نہیں ۔ متواتر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے۔
وقت کیا ہے؟ زندگی کا دوسرا نام ہے۔ المیہ یہی ہے کہ وقت کی قدر وقت پر نہیں آتی۔ اسی لیے فرمایا، ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت سمجھو۔۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت وسلامتی کوبیماری سے پہلے، تونگری کو غربت سے پہلے، فراغت کو مشغول ہونے سے پہلے،اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘
جوانی جوش سے عبارت ہے، اس وقت ہوش کم ہی ہوتا ہے، اگر صحیح نہج پر ڈھل جائے تو غنیمت ہے۔ سعدی نے کہا کہ جوانی میں خالق سے تعلق جوڑنا چاہیے، کہ یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے، کہ وہ اپنے بہترین وقت میں بہترین ذات کا انتخاب ہیں جس سے لوگ عموماً عمر کے اس حصے میں غافل ہوتے ہیں جبکہ بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی پرہیزگا بن جاتا ہے، پس جس نے اپنے بہترین وقت میں بہترین فیصلہ کر لیا اس نے عین فلاح کو پا لیا۔
آدمی ساری عمر سود و زیاں کا طواف کاٹتا رہتا ہے۔ لیکن اکثر کی نگاہ عارضی نقصان پر لگی ہوئی ہے، دائمی خسارے کی فکر کسی کو نہیں.
اصحاب رسول ( علیھم السلام ) کا مقام کس سے پوشید ہے؟ ان ہستیوں کو ابدی خسارے کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی۔ فرماتے کہ ہماری کوئی بھی نشت یا مجلس ہوتی ۔ برخاست ہونے سے قبل لازمی سورۃ العصر کی تلاوت کرتے ۔ مقصد یہ تھا کہ کتابِ لاریب کی یہ وارننگ ہر وقت پیش نظر رہے کہ انسان بالعموم خسارے میں ہے۔ اور سارا زمانہ اس پر گواہ ہے۔ کیسا دلنشین مگر فکر انگیز پیرایہ بیان ہے. ایک ابدی حقیقت کو چند جملوں میں سمیٹ دیا ۔ کتاب کی معرفت رکھنے والوں نے کہا کہ اگر سارا قرآن نازل نہ ہوتا۔ صرف سورہ عصر نازل ہوتی۔۔۔۔باوجود اس قدر ایجاز و اختصار کے۔۔۔۔ نوع بشر کی ہدایت کے لیے کافی و شافی ہوتی ۔ ہر دور میں اہل علم نے اس کے حقائق سے پردہ کشائی کی ۔ مبلغ اسلام ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری نور اللہ مرقدہ کا رسالہ بنام "زمان و مکاں کا عمرانی فلسفہ : سورہ عصر کی روشنی میں" فکر کے نئے دریچوں کو کھولتا ہے، لکھا کہ زمانہ نفسی اور معنوی حقائق کا گنجینہ ہے، عقل انسانی کے لیے ایک چیلنج ہے.
اکثر لوگ نئے سال کے آغاز پر اہداف بناتے ہیں ۔ اچھی بات ہے۔ لیکن قوم میں سیلف ڈسپلن کی خصلت عنقا ہے. اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔ یہ آزمودہ بات ہے. لیکن اگر ہدف واضح ہو۔ تدبیر موثر ہو۔ اور سیلف ڈسپلن بھی ہو تو کوئی بھی منزل انسان کی پہنچ دور نہیں رہ سکتی ۔
نئے سال کے موقع پر بعض لوگ نصیحت کی فرمائش بھی کرتے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ عقلمند کو نصیحت کی حاجت نہیں، جبکہ بیوقوف پر اس کا اثر نہیں ۔ اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عصرِ رواں میں نصیحت بے سود ہے۔ ہر شخص خود کو افلاطون بتاتا ہے۔ کسی کی کوئی بات بھی قبول کرنے میں ہزار تامل کرتا ہے۔
بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ جو اچھے کام کر رہا ہے انہیں جاری رکھے، لوگوں کی تعریف و تنقید کی ہر گز پرواہ نہ کرے۔ اور جو خیر پر مبنی کام ابھی شروع کر سکتا ہے، ان میں دیر نہ کرے۔
تبصرہ لکھیے