ہمارے ہاں کچھ خواتین اپنے بچوں کو بنیادی اخلاقیات سکھانے کے حوالے سے تکلیف دہ حد تک لاپرواہی برتتی ہیں۔
مثلاً اپنے گھر میں بچوں پہ ہر طرح کی روک ٹوک کریں گی انہیں قیمتی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں نہ ہی گھر کی تربیت خراب کرنے کی اجازت دیتی ہیں لیکن جونہی یہ اپنے بچے لیکر کسی دوسرے کے گھر جائیں گی بالخصوص بھائی بھابھی کے گھر تو انہیں ایسے چھوڑ دیتی ہیں جیسے کمینہ ہمسایہ اپنے ڈھور ڈنگروں کو مخالف کسان کے کھیتوں کو برباد کرنے کیلئے جان بوجھ کر کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
انہیں کبھی اس بات پہ شرمندگی نہیں ہوتی کہ ان کے بچوں نے کسی دوسرے کی محنت کی کمائی سے اور بہت محبت اور چاؤ سے خریدی گئی چیز کو ایک لمحے میں توڑ کر ڈسٹ بن میں پہنچا دیا ہے۔
نہ انہیں خاتون خانہ کے ہی کچھ جذبات کا احساس ہوتا ہے جس نے جانے کتنی خواہشوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے گھر آنگن کی سجاوٹ کیلئے وہ اشیاء خرید کر سجائی ہوں گی۔
ان کے بچے دوسروں کے گھر جا کر تباہی مچا دیتے ہیں مگر مائیں بےحس بنی مہارانیوں کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ رکھے چپ چاپ سکون سے اپنے بچوں کو دوسروں کے گھر کی قیمتی اشیاء توڑتے دیکھتی رہتی ہیں۔
نہ مائیں اٹھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرتی ہیں نہ زبانی کلامی کچھ سرزنش کرتی ہیں نہ ہی ان کے شوہروں کو اپنے بچوں کی تخریب کاری اور بچوں کی والدہ کی بےحسی ہی ذرا شرمندہ کرتی ہے۔
بندہ ایک آدھ گھوری مار کر بیگم کو احساس ہی دلا دے کہ
بی بی اٹھ اپنے بچوں کو ذرا قابو کر یہ نہ تو تہذیب نہ ہی اخلاقیات کہ ہمارے بچے دوسروں کے گھروں میں جا کر ان کی قیمتی آرائشی اشیاء کو توڑ پھوڑ کر ان کا مالی نقصان کریں اور ہم چپ چاپ تماشا دیکھتے رہیں۔
حالانکہ اگر والدین خود احساس کر کے بچوں کو روکنے کی کوشش کریں تو میں نے دیکھا ہے اکثر میزبان خود کہہ دیتے ہیں
ارے کچھ نہیں ہوتا بچہ ہے کھیلنے دیں
لیکن جہاں میزبان یہ دیکھ رہا ہو کہ ماؤں نے بچوں کو توڑ پھوڑ کرنے کیلئے شتر بےمہار کی طرح بلکہ کھلے سانڈوں کی طرح چھوڑ دیا ہے اور باپ بھی بےحس بنا لاپرواہی سے یہ سب تماشا ہوتے دیکھ رہا ہے تب انہیں شدید تکلیف ہوتی ہے۔
یہ تکلیف چیزوں کے ٹوٹنے سے کہیں زیادہ اس بےحسی کی ہوتی ہے جس کا مظاہرہ مہمان کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں اگر میزبان آگے بڑھ کر بچے کے ہاتھ سے چیز لے لے اسے اٹخ پٹخ کرنے چیزیں توڑنے سے منع کر دے تو بجائے بچوں کو ڈانٹنے کے ایسے میزبان الٹا ماتھے پہ بل ڈال کر میزبان ہی کو شرمندہ کرنے لگتے ہیں کہ انہوں ہمارے بچے کو منع کیوں کیا؟
کیوں ان کی نقصان دہ شرارت کو برداشت نہیں کر لیا گیا؟
بچے ہم سب کے گھروں میں ہوتے ہیں ان کی شرارتوں ،بدتمیزیوں سے بھی ہم واقف ہوتے ہیں جانتے ہیں بچے شرارتیں بھی کریں گے بڑوں کی طرح آرام سے نہیں بیٹھ جائیں گے۔
یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ بچے اگر شرارت نہ کریں تو اصل فکر ،پریشانی اور اچھنبے کی بات تو یہ ہے۔
بچے تو سچ مچ معصوم ہوتے ہیں انہیں نفع نقصان کی کوئی خبر نہیں ہوتی یہ والدین بالخصوص ماں ہی ہوتی ہے جو قدم قدم پہ انہیں راہنمائی دیتی ہے بتاتی ہے سمجھاتی ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ بچوں کی شرارتوں کو قابو میں کیسے رکھنا ہے
اگر آپ نے بچے پیدا کر ہی لئے ہیں تو ان کی تربیت کرنا بھی سیکھیں ان کی ذمہ داری بھی لیں محض کھانا کپڑا مہیا کرنا ذمہ داری نہیں ہوتی ان کی اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی اہم ذمہ داری ہے جیسے کھانا اور تن ڈھانکنا۔
بچے جنگل یا ویرانے میں اگنی والی "خود رو" جھاڑیاں نہیں ہوتے کہ انہیں جیسے بےہنگم انداز میں بڑھتے جائیں بڑھنے دینا چاہیے پھر چاہے ان کی بنا کانٹ چھانٹ کے ادھر ادھر بکھری ہوئی ٹہنیوں سے جس کا چاہے دامن الجھے پرواہ نہیں یا ان کے کانٹے دوسروں کو زخمی کرتے رہیں مگر آپ کو رتی برابر فکر نہ ہو۔
بچے تو آپ کے آنگن میں لگے پھول پودے ہیں جن کی تراش خراش کی ذمہ داری آپ کا فرض ہے انہیں صرف وقت پر پانی ہی نہیں دینا ہوتا بلکہ بکھری الجھی شاخوں کو کاٹنا بھی ہوتا ہے تاکہ وہ ایک فریم میں آ کر اپنے حسن کے سب جلوؤں سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو طراوت بخشیں۔
یاد رکھیں اگر آپ نے انہیں ویرانے یا جنگل کی خود رو جھاڑیوں کی طرح اگنے دیا تو پھر راہ چلتے انہیں پیروں تلے کچل بھی ڈالیں گے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ اپنے بچوں کو ایسا کرنے سے روکتے کیوں نہیں؟
آخر کس سوچ اور خیال کے ساتھ ایسا کرتے ہیں یہ؟
کیا انہیں یہ لگتا ہے اس طرح روک ٹوک نہ کر کے وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر رہی ہیں یا اس طرح کر کے یہ اپنے بچے کا کانفیڈینس لیول بڑھا رہے ہوتے ہیں؟
کیا اس طرح آتی ہے پر اعتمادی بچوں میں؟
آپ کا کیا خیال ہے ایسے والدین ایسا کیوں کرتے ہیں؟
کیوں نہیں روکتے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں جا کر بدتمیزیاں کرنے سے؟
اور کیا آپ کے اردگرد ہیں ایسے والدین؟
تبصرہ لکھیے