مسافر جب لوٹ کر آتے ہیں اور دور دیس کی کہانیاں سناتے ہیں تو دل کی دنیا مچل مچل جاتی ہے۔کبھی لطف آتا ہے اور کبھی وجود سے رائیگانی لپٹ جاتی ہے کہ کاش یہاں بھی ویسا ہی کچھ ہو سکتا۔
میرے دوماموں امریکہ کے شہری ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ راستوں میں کیسے دھند اترتی ہے اور کیسے سڑکوں پر ہرن بے خوف بھاگتے پھرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں دھند تو ہمارے ہاں بھی اترتی ہیں لیکن ہرن تو دور کی بات یہاں تو چڑیوں کو بھی امان نہیں ۔ یہاں تو کسی کو کچھوا نظر آ جائے تو پتھر مار مار کر اس کا حشر نشر کر دیا جاتا ہے۔
ابھی پرسوں اپنے دوست فیصل سید نے مانچسٹر سے ویڈیو کال کی کہ تم مارگلہ کے حسن کے مداح ہو ، یہ دیکھو یہاں کے پرندے اور جانور کتنے بے خوف ہیں ۔ یہ جھیل سے راج ہنس اڑ رہے ہیں۔ ان کے پروں کی آواز سنو۔ یہ دیکھو یہ راستے میں پرندے کتنے بے خوف ہیں ، کیا کبھی مارگلہ میں تم نے کبھی اتنا بے خوف پرندہ دیکھا؟
چند ماہ پہلے آئر لینڈ سے ڈاکٹر انعام الحق صاحب کا سندیسہ آیا کہ مارگلہ کا حسن بہت دیکھ لیا ، اب میرے مہمان بنیں اور آئر لینڈ کے جنگل اور جھیلیں بھی آ کر دیکھیے۔
یہ ایک لمبی داستان ہے اور ہر کہانی سوال بن کر وجود میں اتر جاتی ہے کہ کیا ہم بھی کبھی فطرت کے ساتھ اسی طرح کی دوستی کر پائیں گے؟ سنتا ہوں ، سوچتا ہوں اور تقابل کرتا ہوں مگر دل کی دنیا سے جواب نفی میں ملتا ہے۔ رائیگانی کی کسک اور بڑھ جاتی ہے۔
اب ایک تازہ کہانی جناب وزیر اعظم نے سنائی ہے کہ جاپان کی محنتی اورمہذب قوم جب احتجاج کرتی ہے تو یہ سڑکیں بند کرتی ہے نہ کسی شہر کا گھیرائو کرتی ہے بلکہ وہ معمول کا کام بھی جاری رکھتی ہے اور ساتھ احتجاج کے طور پر ’ اووو‘ کرتی رہتی ہے۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور کہیں کہیں لڈو پھوٹنے لگ گئے۔ دل کے نہاں خانوں سے آوز آئی، اے رائیگانی کے احساس سے جھلسے بے بس انسان، تم اپنی جنگلی حیات کا تحفظ نہیں کر سکتے ، تم اپنے ہرنوں کو نہیں بچا سکتے ، تم اپنی جھیلوں میں اڑتے راج ہنسوں کے پروں کی آواز سننے سے بھی محروم ہو ، تو اب کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ کم از کم کسی مہذب اور محنتی جاپانی کی طرح ’ اُوووو‘ ہی کر لیا کرو؟
میں نے سوچا بات اگر ’ اُوو وو‘ پر ہی آ کر رک گئی ہے تو کم از کم ایک کوشش کی جا سکتی ہے۔ احتجاج کی اس شکل کی تو جناب وزیر اعظم خود اجازت عطا فرما رہے ہیں تو اس کا فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت کے مترادف ہو گا۔
اُووو ہے جناب وزیر اعظم ، ہماری طرف سے اُووو ہے۔دیکھ لیجیے میں کالم بھی لکھ رہا ہوں اور اُوووو کیے جا رہا ہوں ، میرے قاری کالم پڑھ رہے ہیں اور اُووو کیے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا ملک ’ اووووو اووو‘ کر رہا ہے۔
عدالتیں طے کر چکی ہیں کہ پنشن خیرات نہیں ہے ، ریٹائرڈ ملازمین کا حق ہے۔ عدالتیں
یہ بھی طے کر چکیں کہ جو حق دیا جا چکا وہ چھینا نہیں جا سکتا ۔لیکن آپ کی حکومت نے ایک نوٹی فیکیشن سے اس حق کے ساتھ ناحق کر دیا ہے۔ سرکاری ملازم پکار رہے ہیں: ’ اُوووو‘‘۔
عوام کی بات آئے تو آپ کے خزانے خالی ہیں لیکن اسمبلیوں میں آپ کی حکمران جماعت کے مزاج یار میں آئے تو خود ہی اپنی ہی تنخواہوں میں 800 فی صد تک اضافے فرما لیے جاتے ہیں ۔ کبھی نہ بکنے ، کبھی نہ جھکنے والے ، کردار کے غازیوں ، بے داغ ماضیوں والے ، ہمارے ووٹ کے جائز حقداروں کی یہ قانون سازیاں دیکھ کر ووٹرز پکار رہے ہیں:۔ اُووووووو۔
خلق خدا انسانوں جیسی زندگی مانگے تو ارشاد ہوتا ہے خزانہ خالی ہے لیکن پچھلے سال جناب وزیر اعظم نے اپنے وزیر اعظم ہائوس کے ملازمین کے لیے چار اضافی تنخواہوں کی منظوری دی۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان ملازمین نے کون سے کمالات کیے تھے کہ ان پر یہ نوازشات فرمائی گئیں۔ ہاں اتنا ضرور معلوم ہوا کہ اس سخاوت شاہی کے لیے بنکوں سے 23 فی صد شرح سود پر قرض لیا جانا تھا۔باقی کے ملازمین اب منہ طرف وزیر اعظم ہائوس کر کے آواز لگا رہے ہیں: اُووووو۔
جوڈیشل الائونس کے نام پر عدالتی اہلکار اپنے سکیل سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ باقی کے ملازمین سر دھن رہے ہیں کہ :اُوووووو
سپریم کورٹ کا ایک جج ریٹائر منٹ کے بعد بنیادی تنخواہ کا قریب 80 فی صد پنشن اور مراعات کی شکل میں وصول کر تا ہے۔ باقی کے ریٹائرڈ ملازمین سوچتے ہیں کہ انصاف کے یہ جھرنے اس کے آنگن کا رخ کیوںنہیں کرتے۔ وہ گھٹی گھٹی سی آواز نکالتا ہے: اُووووو۔
اسلام آباد کے ایک ہسپتال کو ، جہاں شفا قسمت والوں کو ملتی ہے ، اڑھائی ایکڑ زمین ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے الاٹ کی گئی جس کی قیمت شاید اربوں میں بنتی ہے۔ مریض اور ان کے لواحقین اس عنایت کو دیکھتے ہیں اور سُر لگاتے ہیں: اُووووو۔
اسلام آ باد کلب کے پاس 224 ایکڑ سرکاری زمین ہے ، یہ اسے صرف ایک روپے فی ایکڑ سالانہ پر الاٹ ہوئی۔ بعد میں شور مچا تو یہ قیمت بڑھا کر گیارہ روپے فی ایکڑ کر دی گئی۔ افسر شاہی کو سرکاری زمین پر مستیاں کرتے دیکھ کر رعایا پکارتی ہے: اُوووووو۔
محکہ تعلیم کی افسر شاہی مری کے سیر سپاٹوں کو ’’ سرکاری دوروں‘‘کا نام دے کر نکلتی ہے۔ راستے میں خطہ پوٹھوہار آتا ہے۔ اساتذہ کو حکم دیا جاتا ہے چھٹیوں میں سکولوں کالجوں میں حاضر ہو جائو کیا معلوم مری جاتے یا آتے صاحب کارروائی ڈالنے کہیں رک ہی جائیں ۔ اساتذہ ان تاجداروں کے ٹی اے ڈی اے کا صدقہ بن جاتے ہیں اوربغلیں بجاتے ہیں : اُووووو۔
جنگلات کی زمین پر ٹائون بن جاتے ہیں ، آزادی صحافت کی آنیاں جانیاں دیکھ کر رعایا سہم سہم جاتی ہے: اُوووووو۔
کہیں سپریم کورٹ کے ملازمین کے لیے سیکٹر بن رہے ہیں ، کہیں آئی بی والوں کے لیے ، کہیں اس وزارت کے لیے کہیں اُس و زارت کے لیے ، سستے پلاٹ ہتھیاکر عوام کو بیچے جاتے ہیں جن کے لیے کوئی سوسائٹی نہیں۔ مجبور عوام جیبیں خالی کر کے چلاتے ہیں: اُوووووو۔
انصاف ملتا نہیں ، افسر شاہی کی گردن میں سریا ہے ، عوام کو ہر جگہ ذلیل کیا جاتا ہے۔ لوگ صبح اٹھتے ہیں تو انگڑائی لیتے ہیں :اُوووووو۔ شام سوتے ہیں تو آہ نکلتی ہے: اُووووو۔
جناب وزیر اعظم ! ساری قوم ’’ اووووئیو اوئی ‘‘ ہوئی پڑی ہے۔اووووووو جناب وزیر اعظم! اوووووووو۔
تبصرہ لکھیے