ہوم << آہ !ڈاکٹرمنموہن سنگھ عالم اُداس ہے - ش م احمد

آہ !ڈاکٹرمنموہن سنگھ عالم اُداس ہے - ش م احمد

ڈاکٹر منموہن سنگھ‘ سابق وزیراعظم ہند اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ چوٹی کے ماہر اقتصادیات اب ہمارے درمیان نہیں۔ آپ کچھ عرصہ سے ناساز ی ٔطبیعت کے سبب دلی کے شفاخانے میں زیر علاج تھے مگرگزشتہ دنوں ۹۲؍ سال کی پکی عمر میں آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جب داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اُنہوں نے اپنی کتاب ِ زندگی کا وہ آخری ورق اسپتال کے بیڈ پر تحریر کردیاجوہر انسان دنیا سےوداع لیتے ہوئے چار وناچار اوروں کے لئے درس ِ نصیحت کے طور بزبان ِ حال لکھ چھوڑ تا ہے ۔ اُ ن کے دیہانت کی جانکاہ خبر سن کر ملک کے گوشے گوشے سمیت جموں کشمیر کے مطلع ٔ انسانیت پر سوگواری کے بادل چھاگئے۔ یہ انتقال ایک متنفس کی موت کی روایتی کہانی نہیں بلکہ یہ ملکی عوام کے لئے ایک بڑا صدمہ خیز قیامت ہے جن کے حال ومستقبل سنوارنے کی فکر میں ڈاکٹر صاحب پوری دل سوزی کے ساتھ ہمہ تن مصروف رہتے تھے ۔ مختلف قبیل وقماش کے سوگواروں کو یہ تلخ احسا س ستا رہا ہے کہ اُن کے تئیں اعلیٰ سیاسی سطح پر مثبت سوچ اور انسان دوستانہ انداز ِ فکر اپنانے والا مسیحا ابدی نیند سوگیا اور ہم اُس دست ِشفقت سے ہمیشہ ہمیش کے لئے محروم ہوئے ہیں۔
ا س میں دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر سنگھ صاحب ہر دل عزیز قائد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے اور یک رُو انسان تھے ‘ غریب پرور تھے ‘ دل سےنادار طبقات کی خیرخواہی چاہنے والے عظیم ٹیکنوکریٹ تھے‘اُن کے لئے وزارت وصدارت ہو یا وزارتِ عظمیٰ کا سنگھاسن محض منصبی ذمہ داریوں سے بطریق ِ اَحسن عہدہ برآ ہونے اور اپنی عمدہ کا ر کردگی سے خدمت ِخلق سرانجام دینے کا زریں موقع فراہم کر تی تھی اور بس۔ بلا شبہ اُن کےرگ و پے میںپچھڑے ہوئے طبقات کو بلا کسی امتیاز وتفریق کے سماجی ‘اقتصادی اور تعلیمی طور اوپراٹھانے کا سچا اور پکا جذبہ ہمیشہ پیوست رہا۔ چونکہ اُنہوں نے خود غربت کے کچوکے کھائے تھے ا ور مہاجرت کے گہرے زخم بھی سہے تھے ‘ ا س لئے بخوبی جانتے تھے کہ کسی غریب آدمی ‘ کسی مفلوک الحال کنبےاور کسی ستم رسیدہ خانوادے کے لئے ناموافق حالات میں دو وقت کی روٹی کے واسطے کشمکش
کر کے جینا کتنا دشوار اور جاں گسل مرحلہ ہوتاہے ۔ بیرونی ممالک میں بھی ڈاکٹر صاحب کے ذاتی اوصاف کےمداح ‘ خاص کراُ ن کی تیر بہدف معاشیاتی فکر وبصیرت کے قدردا ن علمی حلقے آپ کی دائمی جدائی پر بہت غم زدہ ہیں اور ان کی فوتیدگی پراظہارِ تاسف کر نے میں پیش پیش ہیں ۔ پرائم منسٹر مودی جی سے لے کر قائد ِحزب اختلاف راہل گاندھی تک تمام سرکردہ قومی رہنماؤں ‘ سیاسی پارٹیوں‘ سماجی شخصیات اور عام لوگوں نے سورگباشی لیڈر کو شاندار الفاظ میں خراج ِ عقیدت پیش کیا ۔ جموں کشمیر میں بھی ڈاکٹر صاحب کے انتقال پر گہرے دُکھ اور غم کا اظہار کیا گیا ۔ واقعی آپ ہندوستان کے ایک عظیم سپوت تھے اور قابل قدر سیاست دان تھے ۔
سورگباشی ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی اپنے منہ میں سابق صدرِ ہند مرحوم ڈاکٹر عبدالکلام کی طرح کوئی سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہ ہوئے تھے ۔ دونوں یکساں طور غربت اور افلاس زدہ خاندانوں کے چشم وچراغ تھے۔ عبدالکلام صاحب نے ایک غریب ماہی گیر گھرانے میں جنم لیا تھا‘ غریبی وناداری کا حال یہ تھا گزارہ چلانے کے لئےکہ اُنہیں بچپن میں اخباری ہاکر کے طور پر کام کرنا پڑا تھا ‘ پھر بھی تعلیم کی روشنی سے خود کو ایک لمحہ بھی محروم رکھنے پر تیار نہ ہوئے ۔ زندگی میں اونچی پرواز کے لئے انہوں نے قلم اور کتاب سے جنون کی حدتک پیار کیا‘ کتابوں میں غرق رہ کر حوصلہ شکن حالات میں جوں توں تعلیم کے نور کے ساتھ رشتہ بنائے رکھا ۔ گردشِ زمانہ کے بہت سارے سردوگرم دیکھ کر آخر یہی کلام صاحب فقط اپنی خداداد صلاحیت اور مسلسل محنت کے بل پر ایک روز ملک کے عظیم سائنس دانوں کی صف میں شامل ہوئے اور ’’مزائل مین آف انڈیا‘‘ کہلائے ‘ آگے صدرِ ہند کے عہدۂ جلیلہ پر بھی فائز ہوئے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب کی زندگی کی کہانی عبدالکلام سے کسی حدتک ملتی جلتی ہے ۔ آپ برطانوی ہند کے ضلع جہلم پنجاب( جواب پاکستان میں شامل ہے ) کے گاہ نامی گاؤں میں ۱۹۳۲ کو پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار گر مُکھ سنگھ بزازی کا معمولی دھندا کرتے تھے۔ منموہن جی کا داخلہ دوکچے کمروں پر مشتمل بچوں اور بچیوں کے لئے مخصوص مقامی سرکاری اسکول میں کیا گیا۔ اسکول میں مسلم اور غیر مسلم لڑکے اور لڑکیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے لئے بڑے ذوق وشوق سے پڑھتی لکھتی تھیں ۔ اُستاد دولت رام اور ہیڈماسٹر عبدالکریم کی شاگردی میں ڈاکٹر صاحب کی تعلیمی صلاحیتوں کے ابتدائی بال و پر نکلے۔ وہ بچپن سے ہی ہونہار ‘ذہین ‘ قابل مگر شریف الطبع طالب علم مانے جاتے تھے‘ اس لئے کلاس کے مانیٹر بنائے گئے‘ کھیل کود میں بھی آگے تھے۔ ان میںاردو شعر وشاؑعری کاشغف بھی یہیں پرپیدا ہوا اوران کی زندگی کا تاعمر حصہ بنی رہی ۔ اسکول میںاپنے ہم جماعتی شاہ ولی ‘ غلام محمد خاں اور راجہ علی محمد نامی مسلم طلبہ سے منموہن صاحب کےحلوے مانڈےدوست تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی خداداد قابلیت کا حال یہ تھا کہ اسکول کے مدرس دوسرے طلبہ وطالبات سے کہتے اگر ہم سے کچھ پلے نہ پڑے تو موہنا
( منموہن جی اسی پیار بھرے نام سے اسکول میں جانا پہچانا جاتا تھا ) سے پوچھنا ‘ وہ صحیح رہنمائی کرے گا۔ چوتھی کلاس پاس کر نے کے بعداُن کا گھرانہ چکوال نقل مکانی کر گیا‘ یوں بچپن کے یہ سارے دوست ساتھی اُن سے بچھڑ گئے ۔سنہ سنتالیس میں تقسیم سے کچھ عرصہ قبل آپ امرتسر چلے آئے تھے ‘ ابھی یہیں پر مقیم تھے کہ تقسیم کی لکیر نے ان کے اہل ِ خانہ کو بھارت ہجرت کرنے پر مجبور کیا‘ پھر انہیں کبھی اپنے وطن مالوف لوٹنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ آپ نے ۲۰۱۰بہ حیثیت وزیراعظم قوم کے نا م اپنے خطاب میںجذباتی انداز میں اپنی معاشی کسمپرسی کا انکشاف یہ کہتے ہوئے کیاتھا: میں نے مٹی کے دیے تلے اپنی تعلیم کا شوق پروان چڑھایا کیونکہ ہمارے گاؤں میں بجلی ہی نہ تھی اور آج میں جو کچھ بھی ہوں‘ اسی تعلیم کی بدولت ہوں ۔
کشمیر میں امن وترقی کی بحالی اور تعمیر نو کا خواب اٹل بہاری واجپائی کی مانند ڈاکٹر منموہن سنگھ کے قلب و ذہن میں بھی سر فہرست رہا۔اُن کے عہد حکومت میں ہی ۲۰۰۶ میںکشمیر میں مستقل امن قائم کرنے کے لئے پانچ ورکنگ گروپوں کو تشکیل دیا گیا ۔ مختلف النوع معاشی اصلاحات ا ورترقیاتی اقدامات پر سفارشیں اور تجاویز مرتب کر نے پر مرکوز پانچ گروپوں میں سے چا ر کی رپورٹیں پیش بھی ہوئیں ۔ ۲۰۰۷ میں ان پرمزید غوروخوض کے لئے سری نگر میں سیکنڈ گول میز کانفرنس کے انعقاد کا سہرا بھی ڈاکٹر صاحب کے سر جاتا ہے ۔آپ بہ نفس ِ نفیس سری نگر تشر یف فرما ہوئے۔ یہ عمر عبداللہ کا پہلا دورِ اقتدار تھا۔
قبل ازیں کشمیر میں قیام ِ امن کے لئے نائب صدر ڈاکٹر حامد انصاری کی سربراہی میں قائم دلیپ پڈگاؤنکر اور رادھا کمار پر مشتمل سہ رُکنی گروپ نے بھی بحالیٔ اعتماد کے حوالے سے اپنی بعض سفارشات پیش کر دی تھیں۔ بہر حال یہ ساری کد وکاوش مشقِ لاحاصل رہ کر بہت جلد تاریخ کےغل غپاڑے میں گم ہو کر رہ گئی ۔ مجھے یاد ہے کہ دوسری گول میز کانفرنس کی وجہ سے ٹریفک حکام کوسری نگر کی بعض مصروف شاہراؤں پر ٹریفک کی نقل وحرکت حفاظتی مقاصد کے تحت بند کرناپڑی تھی۔ ظاہر ہے اس سے لوگوں کو متعدد مسائل اور ذہنی کوفت کا سامنا رہا۔ آںجہانی ڈاکٹر صاحب نے ان عوامی مشکلات کا بر وقت ادراک کرکے نئی دلی واپس لوٹتے ہوئے علانیہ طور اہالیانِ سری نگر سے معذرت خواہی کی کہ انہیں کانفرنس کے سبب آمد ورفت میں دقتیں پیش آئیں ۔ یہ فطری منکسر المزاجی منموہن سنگھ صاحب کی خلوت وجلوت میں بچپن سے لے کر دم ِ واپسیں تک ساتھ رہی۔ شاید اسی لئےاُن کے بچپن کے یار نے برحق کہا تھا کہ اگر موہنا جیسے لوگ دنیا میں ہوتے تو جہانِ رنگ وبُوجنت ہوتی اور یہاں کسی بگاڑ وعناد کانام ونشا ن بھی نہ ہوتا۔ اس میں دورائے نہیں کہ قومی تاریخ میں ڈاکٹر صاحب جیسے ایماندار‘ مخلص ‘ محب وطن ‘ سنجیدہ ذہن ‘ خاموش طبع ‘ ہر چھوٹے بڑے سے فطری مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے والے ‘صبر وتحمل سے ناقدین کی بات تادیر سننے والے ‘ اپنی بات مختصر الفاظ میں منطق و استدلال کے ساتھ پیش کر نے والے‘ عوامی اُمنگوں اور اُن کے آئینی حقو ق کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے‘ جمہوری اقدار ‘ قومی ایکتا اور کشادہ ذہنی سے سیاست کر نے والے نیتا یکے بعد دیگرے ناپید ہورہے ہیں اور دنیا برائیوں کا اڈہ اور دشمنی وعداوت کی منافع بخش انڈسٹری بنتی جارہی ہے۔
مسٹر سنگھ نےدو مرتبہ وزات اعظمیٰ سنبھال کر اپنی مدت ِکار میںجو جو کارہائے نمایاں قوم کی نیا پار لگانے کے لئے انجام دئے ‘ علی الخصوص عالمی کساد بازاری(recession) کے تباہ کن اثرات سے قوم وملک کی معیشت بچانے میں اُنہوں نے اپنی اقتصادی سوجھ بوجھ سے جو معجزاتی کام لیا‘ وہ سب تاریخ میں آب ِ زرسے لکھا جائے گا۔ یہ کامیاب سیاسی حکمت عملی ا ور معاشی تدبر کی عمدگی کا ثبوت ہی نہیں دیت بلکہ جمہوریت کی تایخ میں اُنہیں مثالی حکمران کی صف میں فخراًکھڑ اکرتی ہے ۔ بے شک یو پی اے کو جن پیچیدہ ملکی مسائل اور قومی معاملات کا سامنا تھا‘ اُن کی موجودگی میں وزارت عظمیٰ کی کمان سنبھالنا کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا‘لیکن ڈاکٹر صاحب نے بحسن وخوبی کر یہ کر دکھایا۔البتہ دستورِ سیاست کے مطابق اُنہیں اپنی کارکردگی کے حُسن وقبح کے حوالے سے اپوزیشن کی تنقید اورطعن وتشنیع کے تیر وتفنگ بھی ہنستے مسکراتے سہنا پڑے‘ کورپشن کے متعدد الزمات واتہامات کی شکل میں مخالف سیاسی دھارے کے تیر ونشتر اُنہیںاپنے سینے پربرداشت کرنے پڑے‘ تیکھی اور تند باتوں کا سا منا بھی کیا مگر ہمیشہ خود زبان پر قابو رکھا اورتلخ نوائی سے بہر صورت پرہیز رہا ‘ اُن پر’’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘‘ ہونےکی پھبتی بھی کسی گئی ‘ اُنہیں وقت کی کانگریس صدر شریمتی سونیا گاندھی کا طفیلی تک بتایا گیا ‘ اُن کی کم گوئی کی دل نشین ادا کو ’’مون‘‘( یعنی چُپ کا روزہ رکھنےو الا) کہہ کر ان کا نک نیم’’مون موہن سنگھ‘‘ رکھا گیا‘ حتیٰ کہ ایک بے داغ و امانت دار لیڈر ہونے کے باوجود کوئلہ گھوٹالے میں ملوث ہونے کے حوالے سے میڈیا میں اُن کا نام حد سے زیادہ اُچھا لا گیا مگر انہوں نے کبھی اپنا آپا نہ کھویا۔ ایک موقع پر اپوزیشن نے کوئلہ گھوٹالے کے ضمن میں جب آپ پر پارلیمنٹ میں بہت دباؤ ڈالا کہ آپ استعفیٰ دیں تو آپ نے یہ اردو شعر پڑھ کر سب کو خاموش کرایا ؎
ہزار جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی
نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرورکھے
حالانکہ اعلیٰ پیمانے کی اداراہ جاتی وعدالتی تحقیق وتفتیش نے کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ڈاکٹر سنگھ صاحب کو ان پر لگائے گئے سارے من گھڑت الزامات سے اُنہیںبالآخربّری کیا ۔اس سے ڈاکٹر صاحب عملاً دُدوھ کے دُھلے ثابت ہوئے ‘ جب کہ آروپ لگانے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کورپشن کے مقدمات سے عدالتی بریت سے منموہن سنگھ صاحب سیاسی تاریخ میں بے داغ ہونے کا سند ِاعزاز پاگئے اور سیاسی ‘ سما جی ‘ عوامی اور علمی حلقوں میں ان کی قدر ومنزلت بھی اور زیادہ بڑھ گئی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُن کی قیادت میں قائم یو پی اے سے وابستہ ہر حکومتی یا سیاسی ہستی غبن گھوٹالوں کی گند اور غلاظت سے پاک و مبرا تھی‘ نہیںقطعی نہیں بلکہ کانگریسی دور ِ حکومت میں کورپشن کےاتنےسارے سنسنی خیز خلاصے ہوئے تھے کہ ملوثین کو جیل کی سلاخو ںکے پیچھے تواتر سے دھکیلا جاتا رہااور ایک موقع پر وقت کے اپوزیشن لیڈر ایل کے ایڈوانی نے کانگریس پر چوٹ کردی کہ اب کانگریس گورئمنٹ کو اپنی کابینہ میٹنگ تہاڑ جیل کے اندر ہی بلانی چاہیے کیونکہ لگ بھگ سارے وزرا ٔ اسی جیل میں ایک ساتھ بند ہیں۔ بدعنوانیوں کی اس ساری دھما چوکڑی کے بیچ ایک درویش صفت ‘ سادگی پسند‘ اصولو ںکی سیاست کرنے والے اور صاف ستھری عوامی شبیہ رکھنےو الے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنے اونچے منصب اور غیر معمولی اختیارات کے ساتھ قدم قدم پر پورا انصاف کیا۔ یہ منفرد چیزاُنہیں اپنے معاصر سیاست دانوں میں اُنہی معنوں میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے جن معنوں میں ہم آج بھی غریب پرور ‘سادہ طبع اور جے جوان جے کسان کا نعرہ لگانے والے ہمدرد انسان آنجہانی وزیراعظم لعل بہادر شاستری کو تاریخ کے آئینے اور بڑے بزرگوں کے حافظے میں زندہ وجاوید بھی پاتے ہیں اور دلوں میں بسنے والے مہا پُرش بھی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی آتما کی شانتی کے لئے تمام باشندگان ِ جموں کشمیرسے لے کر یہاں کی برفانی چوٹیاں اور صحرا و میدان میں پھیلے جملہ مناظرقدرت سمیت تمام ذی روح مخلوقات اشک بار آنکھوں سے اُنہیں وداعی سلام پیش کرتی ہیں۔