ہوم << الیکشن اور تعلیم یافتہ طبقہ-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

الیکشن اور تعلیم یافتہ طبقہ-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

کسی بھی مہذب معاشرے میں سیاسی اصولوں کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ سیاست کا تعلق براہِ راست اس معاشرے کے لوگوں کی زندگیوں سے ہوتا ہے۔ سیاست میں دلچسپی نہ بھی ہو تو اپنی ذات سے ہر کسی کو ایک خاص لگاؤ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا یا اس کا ادراک و شعور کرنا یہ معاشرتی اصولوں کے لیے ایک لازمی جزو ہے۔
انتخابات (الیکشنز) بنیادی طور پر جمہور کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ کس قسم کا مستقبل اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ ایک ووٹ درحقیقت ایک شخص کی رائے ہے جو اس کے آنے والے وقت اور سمت دونوں کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ ایک لاعلم شخص یا اَن پڑھ انسان کبھی بھی شعوری طور پر اس قدر پختہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ ایک پڑھا لکھا شخص ہو سکتا ہے۔ تعلیم شعور کی پختگی کا نام ہے۔ پختہ شعور عمدہ و اعلیٰ اور معیاری فیصلوں پر دسترس رکھتا ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی طالب اقتدار کو شعبدہ باز بنا دیتی ہے۔ یہ شعبدہ گری کے ہنر ان پر آسانی سے اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ جو شعوری اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان شعبدوں سے بچنا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا اس لیے کہ انہیں زندگی کا خواہ کتنا ہی تجربہ کیوں نہ ہو مگر بعض مقامات پر تعلیم کی کمی ان کے شعور کو محدود کر دیتی ہے۔ محدود سوچ ایک دائرے کا مشاہدہ ہی کر سکتی ہے۔ اس دائرے سے نکل کر آگے دیکھنا ان کی طبیعت کا مزاج نہیں ہوتا یا پھر یوں کہہ لیں کہ وہ ایک نہ دکھائی دینے والے خوف سے سہمے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس تعلیم یافتہ اصحاب سہم و خوف سے اس لیے آزاد ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی برس اپنے شعور کو پختہ کرنے میں گزارے ہوتے ہیں۔ ان پر شعبدہ گری کا اثر جلدی سے نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اصحاب پر ذمہ داری بھی کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان کے فیصلے کی اہمیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کا وہ حصہ جو تعلیمی سفر میں کمزوری کا باعث یا کسی اور وجہ سے حصولِ شعور کے اس سفر کو طے کرنے سے قاصر رہا ان لوگوں پر بھی ان اصحاب کا فیصلہ اثرانداز ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

الیکشن چناؤ ہے، ایک اختیار کا استعمال ہے جس کو بروئے کار لا کر کسی پر اعتبار کر کے پانچ برس کے لیے صاحب اختیار ہونے کا منصب عطا کرنا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے اس تیز رفتار دور میں جب سوشل میڈیا ہر وقت متحرک ہے اس ترقی اور تحریک نے شعوری کیفیات کو بھی جگایا ہے۔ اب لاعلمی والے عناصر نسبتاً کم ہو گئے ہیں۔
تعلیم یافتہ طبقہ الیکشن کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ ایک صحت مند سرگرمی سے اگر لوگ اپنی لاعلمی اور کم فہمی جس نے اس کی صحت مند سرگرمی کو کمزور کر دیا ہے بے معنی بنائیں گے تو دراصل وہ اپنے آنے والے دنوں کو نقصانات کی دلدل میں دھکیلیں گے۔ ایک ووٹ، ایک امیدوار کو اس امید پر دیا جاتا ہے کہ یہ اس ووٹر کے جذبات، احساسات، رجحانات اور جائز حقوق و ضروریات کی آواز بنے گا اس لیے لازمی یہ ہے کہ ووٹر کو یہ علم ہو کہ اس کا فیصلہ درست ہے۔ اقتدار میں آنے والے کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اگر وہ یہ ذمہ داری اُٹھانے کا اہل نہیں تو وہ اقتدار کا بھی اہل نہیں۔ بقول شاعر:
کرسی ہے تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

باشعور طبقہ اگر اس بات کو سمجھ لے کہ ان کی ذمہ داری صرف ووٹ ڈال کر اپنی پسند کے امیدوار کو کامیاب کروانا ہی مقصد نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اور شعوری طور پر اپنے سے کم طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اسے حق نمائندگی ادا کرنے کے لیے اپنے مثبت کردار کو ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹر یا رائے دہندگان کو درست امیدوار کی طرف مائل کر کے معاشرے اور ملک کی تقدیر سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔