شیر علی کے نوجوان بیٹے عبداللہ جان کا انتقال ہوگیا تھا ۔ ایسے میں تمام سیاسی معاملات سے کنارہ کشی حالات کا تقاضا تھا۔ شیر علی نے برطانوی وائسرائے لِٹن سے درخواست کی کہ برطانوی مشن کے حوالے سے بات چیت کو موخر کردیا جائے۔بیٹے کے غم سے فراغت کے بعد شیر علی لٹن کے خط کا جواب دینے ہی والا تھا کہ وائسرائے نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قلیل قوت خیبر پاس کی جانب رواں کی۔ اس قوت کو مقامی گورنر نے روک لیا مگر شیر علی سے یہ بے عزتی اور غیر انسانی رویہ برداشت نہ ہو ا ، اس بناء پر انہوں نے برطانوی مشن کو ٹھکرانے کا فیصلہ کیا۔ روسی مشن افغانستان میں سٹولیٹو کی قیادت میں موجود تھا۔روس کی اس موجودگی اور واضح انکار کے بعد برطانیہ نے افغانستان پر دھاوا بول دیا۔
نومبر 1878میں دوسری اینگلو افغان جنگ کا آغاز تب ہوا جب برطانوی 50 ہزار فوجیوں کا لشکر تین مختلف مقامات سے افغانستان داخل ہونا شروع ہوگیا۔ برطانیہ مقامی مزاحمت کو کچلنے کے بعد قندھار، جلال آباد اور وادیِ کرم کو اپنے دائرہ اختیار میں شامل کیا۔پیور کوتل اور جنگ علی مسجد میں فتح کے بعد برطانوی فوج مرکز کے قریب پہنچ چکی تھی۔ شیر علی نے براہ راست روس سے مدد کی اپیل کی مگر شاید عالمی طاقتوں کی یہ لڑائیاں صرف تیسری دنیا تک محدود ہوتی ہیں۔ براہ راست ایک دوسرے کا سامنا کرنا ان کے مفاد میں نہیں۔ مدد تو دور کی بات زار روس کا فرمان وارد ہوا کہ شیر علی برطانوی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ یہاں سے مایوسی کے بعد وہ مزار شریف منتقل ہوئے اور فروری 1879وفات پا گئے۔
جنگ کے اس ہنگامے میں یعقوب خان نے تخت سنبھالا اور توقعات کے عین مطابق برطانیہ کے ساتھ معاہدہ گندمک پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی روسے برطانیہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ معاہد گندمک نے افغانستان کو بظاہر تو بچا لیا مگرخارجہ امور جیسے معاملات کو برطانیہ کے سپرد کیا جو کسی ملک کی اساس ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ علاقے بھی ان کے دائرہ اختیار میں دے دیے گئے۔
کچھ ماہ حالات معاہدے کے مطابق چلتے رہے مگر اچانک 3 سمتبر 1879کو کابل میں علم بغاوت بلند ہوا جس کے نتیجے میں برطانوی نمائندے کو گارڈز سمیت قتل کیا گیا۔اس واقعے نے جنگ کو مزید ہوا دینے کا کام کیا۔
میجر جنرل فریڈرک رابرٹ نے اس کے بعد کابل کا رخ کیا اور دو دن بعد کابل اپنے نام کیا ۔ بغاوت کنٹرول ہوئی اور یعقوب خان کو بھی تخت سے اترنا پڑا کہ ان پہ بغاوت میں شریک ہونے کا الزام تھا۔
یعقوب خان کے بجائے ان کے بھائی کو تخت نشین کرانے کے بعد کئی اور سیاسی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ بالآخر طے یہ پایا کہ ایوب خان گورنر ہرات اور ان کے چچا زاد بھائی عبدالرحمان امیرِ افغانستان ہوں گے ۔ ایوب خان، جو ہرات کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، بغاوت میں اُٹھے، جولائی 1880 میں میوند کی جنگ میں برطانوی دستے کو شکست دی اور قندھار کا محاصرہ کر لیا۔ اس کے بعد روبرٹ نے کابل سے مرکزی برطانوی فوج کی قیادت کی اور 1 ستمبر کو قندھار کی جنگ میں ایوب خان کو شکست دے کر اس کی بغاوت کا خاتمہ کیا۔
یہاں پر دوسری اینگلو افغان جنگ کا خاتمہ ہوا اور معاہدہ گندمک کو دوبارہ بحال کردیا گیا۔امیر عبدالرحمان نے برطانوی حمایت کے ساتھ ارباب اختیار کا منصب سنبھالے رکھا۔
اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد برطانیہ نے 1881 میں انخلا کا عمل شروع کیا۔
تبصرہ لکھیے