ٹوپی ڈرامہ آج بھی جاری ہے۔ کردار ، کہانی، پلاٹ، ڈائیلاگ سب کچھ وہی ہے، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ہاں ایک نسل کے خواب تیسری نسل کو منقل ہوچکے ہیں۔ یہ خواب کچھ نئے ہیں، کچھ پرانے اور کچھ تو ازل سے انسان کے ساتھ ہیں۔ لیکن ہماری اشرافیہ میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ ان خوابوں کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔
انسان اپنی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہے اور فطرت اسے مہمیز دیتی ہے۔ اسی لیےتو ہم سب روٹی ، کپڑا ، مکان، صحت، تعلیم اور سیکورٹی جیسے خوابوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اگرچہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یہاں مجبوری ہے۔ اسی لیے ہر رہبر سے دھوکا کھاتے ہیں۔
ایک شخص خواب لیے، سر بازار صدا لگائے: " خواب لے لو، خواب لے لو، بڑے سہانے خواب لے لو" تو لوگ جھپٹ پڑتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ تو پیشہ ور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کیا بکے گا اور کیا نہیں؟ مارکیٹ کدھر جارہی ہے؟ کیا بکاؤ ہے اور کیا نہیں؟ اس لیے الیکشن کے دنوں میں یہ پیشہ ور ایسی ایسی دلکش تصویریں، لفظوں کی صورت لیے بازاروں میں نکل پڑتے ہیں کہ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو؟ بھوکے کے سامنے کھانا آئے تو تہذیب کا تقاضا اضافی ہے۔
ایک دوست کہنے لگے کہ ہم تو فلاں کو ووٹ دیں گے۔ پوچھا : کیوں؟ کہنے لگے کہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے علاقے میں گیس لگوا کر دے گا۔ ایک چھوٹے شہر میں لوگ موازنہ کر رہے تھے کہ کس نے الیکشن کمپین کے دنوں میں زیادہ دیگیں چڑھائی ہیں۔ اللہ اللہ! کیسی بے قدری ہے کہ سیادت چاولوں کی پلیٹ پر بک جاتی ہے۔
چونکہ خواب مشترک ہیں اس لیے نعرے، کہانی ، پلاٹ سب کچھ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ایک جماعت انسانی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر خوشنما وعدے کرتی ہے۔ لوگ خواب آنکھوں میں لیے دیوانہ وار پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ سال گزرتا ہے، دوسال ، تین سال، خواب سلامت رہتے ہیں لیکن تعبیر ندارد۔ لوگوں میں فرسٹریشن بڑھتی ہے، آہ و زاری بڑھتی ہے، اپوزیشن کی تقریریں بڑھتی ہیں۔ بات جلسے جلوسوں تک آن پہنچتی ہے۔ نئے الیکشن کا ماحول بنتا ہے۔ گرما گرمی شروع ہوتی ہے لیکن وہی ڈرامہ، وہی کردار، وہی ڈائیلاگ، کچھ بھی نہیں بدلتا۔ لوگ پھر خواب آنکھوں میں لیے ووٹ دیتے ہیں، سال گزرتا ہے، دو سال، تین سال، پھر وہی کہانی، جھولے لال، دم مارو دم، ابھی زندہ ہوں تو پی لینے دو.
ہاں کچھ سالوں بعد ذائقہ بدلنے کے لیے کوئی وردی پوش، ٹھک ٹھک کرتے، بھاری بوٹوں کے زور پر، پردہ چشم پر نمودار ہوتا ہے۔ "میرے عزیز ہم وطنو! " کی دھن پہ پچھلی حکومت کی خرابیاں اور اپنے ناگزیر ہونے کا نوحہ پڑھتا ہے اور پھر دس گیارہ سال اس نوحے کی تفسیر میں گزر جاتے ہیں۔ خواب وہی، ڈرامہ وہی، ڈائیلاگ بھی وہی، بس ذرالباس بدلتا ہے. لوگ امید کے جوت آنکھوں میں جگائے، فرشِ راہ ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلتا، سوائے ذائقے کے۔ جانے والے رے! جانے والے رے! کی لے پر ہم تقدیر کا لکھا سمجھ کر غمناک
ضرور ہوتے ہیں، لیکن پھر کسی، خواب لے لو! خواب لے لو! کی نئی آواز پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بالکل ایک ایسے معمول کی طرح جو سب کچھ لٹانے کے لیے تیار ہو۔
دھت تیری کی اے ٹوپی ڈرامے! دھت تیری کی! لیکن آخر کب تک؟ تو مجھے ذرا بیدار تو ہو لینے دے.
تبصرہ لکھیے