چینی صدر ، شی جن پنگ کے تیسری بار صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی چینی معیشت اور اسٹاک ایکسچینج کو غیر معمولی مندے اور گراوٹ کا سامنا
عوامی جمہوریہ چین میں یک جماعتی آمرانہ نظامِ حکومت ہے ۔ شی جِن پنگ 2013 سے چینی صدر اور 2012 سے حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے پیراماؤنٹ لیڈر کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔ چین میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں شی جِن نے بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کے بعد غیر معمولی اور انقلابی اقدامات کیے، جن کا انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی اعلان کیا تھا ۔
چونکہ چین میں اشتراکی نظام نافذ ہے ، چنانچہ طاقت ، اختیارات اور دولت کا مرکز و محور عوام یا براہ راست عوامی نمائندے ہیں۔ ایسے میں چند بڑے صنعت کاروں اور تجارتی اداروں کے مالکان کے پاس غیر معمولی دولت یا اثاثہ جات کی موجودگی ، اشتراکیت یعنی کمیونزم کے بنیادی نظریات سے متصادم ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص جب حقیقی کمیونزم کے نفاذ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا براہ راست اثر صنعت کاروں اور جاگیر دار طبقے پر ہی ہوتا ہے ۔
چنانچہ بیش تر کامیاب ترین چینی صنعت کاروں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ چین ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے ۔ عالمی سطح پر بہت سی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان چین کے ہی شہری ہیں۔ جن میں علی بابا سمیت دیگر بہت سے عالمی شہرت یافتہ ادارے شامل ہیں۔ ان سب کو شی جِن پنگ کے اقدامات کے سبب عالمی اسٹاک مارکیٹ میں شدید دھچکوں اور مندے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب انہوں نے یورپ اور امریکہ کے ساتھ چین کے تجارتی حجم کو کم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ، جس سے معیشت پر مزید بوجھ بھی آ سکتا ہے۔
شی جِن پنگ کے حالیہ اقدامات ، بالخصوص صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف پالیسی نے ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کی یاد تازہ کر دی۔ یاد رہے کہ جنوری انیس سو بہتر کو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی قومی صنعتوں اور اداروں کو قومیا لینے یعنی nationalization کی پالیسی اپنائی تھی ، مگر اس کے پاکستان کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے تھے ۔ مگر بھٹو کے سوشلسٹ نظام یا پاکستانی معیشت اور چین کے نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے ، چنانچہ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ چین لازماً شی جِن پنگ کے حالیہ اقدامات سے نقصان ہی اٹھائے گا۔
تبصرہ لکھیے