آج ہمارا ملک جس تباہ کن سیلاب میں گھرا ہوا ہے، وہ ہم سب کا امتحان بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وارننگ بھی۔ رجوع الی اللہ، استغفار اور خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ عوام سے لے کر حکمرانوں اور سیاست کاروں تک، مزدور سے لے کر کارخانہ دار اور سرمایہ کار تک سبھی کو اس موقع پر خوفِ خدا سے سرشار ہو کر لوٹ مار بند کرنی اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنی ہوگی۔
حضور نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ مخلوق خدا پر کس قدر شفیق ورحیم تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں جمادات بھی ہیں اور نباتات بھی۔ انسان اور جن بھی ہیں، جانور اور طیور بھی، کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض بھی، آبی حیات اور جنگلی وحوش بھی۔ ان سب کے حقوق اللہ تعالیٰ نے متعین کیے ہیں۔ ان حقوق کی بہترین ادائی کی مثال عملی طور پر پوری انسانی تاریخ میں تلاش کریں تو رحمۃ للعالمینﷺ سے بہتر کہیں بھی نظر نہیں آسکتی۔ آپﷺ محض ہدایات نہیں دیتے تھے بلکہ عملاً مخلوقِ خدا کی داد رسی اور شکایات کا ازالہ بھی فرماتے تھے۔
عرب کے معاشرے میں غلاموں اور لونڈیوں کے کوئی حقوق نہ تھے۔ (آج ہمارے معاشرے میں بھی بدقسمتی سے ہاری اور مزدور کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کی جان ومال، عزت وآبروکسی چیز کا تحفظ نہیں ہوسکتا) نبیٔ رحمتﷺ نے غلاموں، لونڈیوں اور مساکین ومظلومین سبھی کے حقوق کو یقینی بنایا۔ حضرت ابوذر غفایؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمہارا محکوم بنادیا تو جس کے زیر دست اللہ نے اس کے کسی بھائی کو کر دیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ جو خود کھائے وہی غلام کو کھلائے، جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے۔ اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے بس میں نہ ہو اور اگر ایسے کام پر اس کو لگانا ہو تو پھر اس میں خود اس کی مدد کرے۔ (بخاری ومسلم) حضرت کعب بن عجرہؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اپنی باندیوں کو کبھی برتن ٹوٹنے پر سزا نہ دیا کرو۔ ان برتنوں کی عمریں بھی تمہاری طرح مقرر ہیں۔ (مسند الفردوس للدیلمی)
کیا عظمت ہے دینِ اسلام کی اور کیا احسانات ہیں محسنِ انسانیتﷺ کے! غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق محفوظ کرنے والے رسولِ رحمتﷺ کی شان تو یہ ہے کہ وہ ایک چڑیا کی شکایت پر بھی بے چین ہو گئے تھے، جس کے بچے (چوزے) ایک صحابی ایک جنگ کے دوران اس کے گھونسلے سے نکال کر اپنے خیمے میں لے آئے تھے، وہ چڑیا کسی او رخیمے پر نہیں گئی،بلکہ آنحضورﷺ کے خیمے پر آکر اس نے اپنی شکایت پیش کی اور آپﷺ نے فوراً حکم دیا کہ اس کے بچے اس کے گھونسلے میں واپس کیے جائیں اور اس حکم پر اسی وقت عمل ہوا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بن ابی طالب کی ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک دن نبی پاکﷺ نے مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ اس موقع پر آپﷺ قضائے حاجت کے لیے سواری سے اتر کر ایک نخلستان میں گئے۔ وہاں پوشیدہ جگہ پر آپﷺ نے قضائے حاجت کی۔
وہاں سے آپﷺ باہر آرہے تھے کہ ایک باغ میں سے اونٹ آپﷺ کے سامنے آیا اور اس نے بلبلانا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حضور اکرمﷺ نے اس کی حالتِ زار دیکھی تو آپﷺ کا دل بھر آیا اور آپﷺ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ آپﷺ نے اس کی پیٹھ اور گردن پر ہاتھ پھیراتو وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے پوچھا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ اونٹ میرا ہے۔ آپﷺ نے اس نوجوان کو مخاطب کرکے فرمایا: کیا تو اس بے زبان چوپائے کے معاملے میں اللہ سے نہیں ڈرتا۔ اللہ نے اسے تیری مِلک میں دے دیا ہے۔ اس حیوان نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس سے کام تو پورا لیتا ہے مگر اسے خوراک پوری نہیں دیتا۔ (معجزات سرورِعالمﷺ، ص:226، بحوالہ سنن البیہقی)
نبی اکرمﷺ کو تو جنگلی جانور بھی پہچانتے تھے اور آپﷺ سے اپنے دکھوں کی شکایت اور ان کے ازالے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ ایک ہرنی کا واقعہ امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں حضرت ام سلمہؓ کی ایک روایت میں بیان کیا ہے،وہ فرماتی ہیں: رسولﷺ ایک مرتبہ کسی سنگلاخ وادی سے گزر رہے تھے کہ آپﷺ نے آواز سنی: یارسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا: میں نے آواز سن کرارد گرد دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ میں آگے بڑھا، پھر وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ میں آواز کی جانب گیا تو دیکھا کہ ایک ہرنی رسیوں سے بندھی ہوئی تھی اور ایک مسلح بدو دھوپ میں پڑا سورہا تھا۔ ہرنی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس بدو نے مجھے شکار کر لیا ہے اور اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
اگر آپﷺ مجھے کھول دیں تو میں انہیں دودھ پلا کے واپس آجاؤں گی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا واقعی ایسا کرو گی؟ اس نے جواب میں عرض کیا: اگر میں وعدہ پورا نہ کروں تو خدا تعالیٰ مجھے دردِ زِہ کے عذاب سے ہلاک کرڈالے۔ آنحضورﷺ نے اس کی رسیاں کھول دیں۔ وہ دوڑتی ہوئی گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ اس کی واپسی پر نبی پاکﷺ اس سے گفتگو کررہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپﷺ اسے رسیوں سے باندھ رہے تھے کہ بدو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے رسول اللہﷺ کو پہچان لیا اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میں نے تھوڑی دیر پہلے یہ ہرنی پکڑی تھی۔ کیا آپﷺ کو اس کی ضرورت ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں! مجھے اس کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا: آپ بخوشی اسے لے لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آزاد کردیا۔ اس پروہ اتنی خوش ہوئی کہ صحرا میں چوکڑیاں بھرتی دوڑی۔ پھر خوشی سے زمین پر پاؤں مارنے لگی اور اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہو گئی۔ (معجزاتِ سرورِعالم، ص: 227-228)
جانور تو جانور‘ آپﷺ سے تو بے جان مخلوق کو بھی بے مثال عقیدت و محبت تھی۔ اس معاملے میں حضرت امام بخاریؒ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ صحابیٔ رسولﷺ حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ کے پاس آئے۔ انہوں نے آپس میں منبرِرسول کے بارے میں بحث شروع کر رکھی تھی کہ منبر کیسے بنا اور کس لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ جب انہوں نے حضرت سہلؓ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: بخدا میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ کس لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ جس روز یہ بن کر آیا اور آنحضورﷺ پہلی مرتبہ اس پر تشریف فرما ہوئے تو میں خود مسجد میں موجود تھا اور میں نے پورا منظر دیکھا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انصاری خاتون کے پاس کسی کو بھیجا کہ وہ اپنے ماہر نجار غلام سے منبر بنوادے ، جس پر خطبے کے دوران آپ بیٹھ جایا کریں۔
اس صحابیہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہ جنگل کی بہترین لکڑی کاٹ کر لائے اور اس سے منبر تیار کرے۔ چنانچہ اس نے منبر تیار کیا اور اس صحابیہؓ نے اسے مسجد نبوی میں بھجوا دیا۔ یہ یہاں رکھ دیا گیا، جس جگہ آج بھی موجود ہے۔ پھر میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چبوترہ نما منبر پر نماز پڑھتے دیکھا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا:لوگو! یہ بلند منبر اس لیے بنوایا گیا ہے تاکہ تم میری امامت میں نماز پڑھو اور مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر نماز کی تعلیم حاصل کرو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی نے انصاری صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓکی روایت کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک انصاری صحابیہؓ نے حضور اکرمﷺ سے خود عرض کیا کہ اس کے پاس ایک کاریگر غلام ہے جو لکڑی کا نہایت نفیس کام کرسکتا ہے۔لہٰذا اگر آپ اجازت دیں تو اس سے وہ ایک منبربنوادے، جس پر آپﷺ تقاریر کے دوران بیٹھ جایا کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: جیسے تم چاہو۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر اس خاتون نے بہت نفیس منبر بنوا کر بھجوا دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منبر پر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کھجور کا وہ تنا جس کے پاس کھڑے ہو کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، رونے لگا۔ اس کی چیخ وپکار اتنی دردناک تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ فرطِ غم سے پھٹ جائے گا۔ سب صحابہ نے اس کی آواز سنی۔ آپﷺمنبر سے اتر آئے اور اس تنے کو پکڑ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ وہ چپ ہوگیا مگر اس طرح اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی جس طرح روتا ہوا بچہ چپ کرنے سے پہلے ماں کی گود میں ہچکیاں لیتا ہے۔ (معجزاتِ سرورِ عالم، ص:120-121، بحوالہ صحیح بخاری)
اللہ کے بندو ذرا سوچو کہ سیلاب زدگان بوڑھے، بچے، مرد وخواتین بھوک اور بیماری سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ نہ سر پہ سایہ ہے نہ پینے کا پانی۔ ایسے میں باہمی چپقلش اور گالم گلوچ کسی باضمیرانسان کا وتیرہ نہیں ہوسکتا۔ سب کچھ چھوڑو اور ان کی مدد کرو۔
تبصرہ لکھیے