اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے دورہ پاکستان کا مقصد سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ملک کی مدد کے لیے عالمی دنیا سے امداد کی اپیل کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔
اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہوں، میرا گزشتہ 17سال سے پاکستان سے محبت کا تعلق ہے جب میں نے اس وقت مہاجرین کے ہائی کمشنر کی حیثیت سے کام کرنے کا آغاز کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں پاکستانیوں کی سخاوت کا عینی شاہد ہوں جنہوں نے 60لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی، آپ نے ان سے تعاون کیا، ان کی حفاظت کی اور اپنے محدود وسائل میں ان کو بھی حصہ بنایا۔
انہوں نے کہاکہ جب میں 2005 ء میں زلزلے ، 2010 ء میں سیلاب اور اس کے بعد دہشت گردی کے واقعات کے دوران پاکستان آیا تو ان تمام واقعات کے دوران بھی لاکھوں افراد بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے لہٰذا مجھے معلوم ہے کہ پاکستان کے عوام پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی اس غیرمعمولی سیلاب کے کس حد تک تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ عالمی برادری سے امداد کے حصول اور پاکستان کے لیے ان سے جو بھی ہو سکا وہ کریں گے کیونکہ یہ بہت المناک سانحہ ہے۔انہوں نے کہاکہ لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے ہیں، اپنے نوکریاں، مال مویشی اور فصلیں گنوا چکے ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں اس وقت امداد کی شدید ضرورت ہے۔
انتونیو گوتریس نے عالمی برادری سے امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تباہی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی مدد کی ضرورت ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان اس سے 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی مدد انتہائی ضروری اور اہمیت کی حامل ہے ، یہ محض اظہار یکجہتی کی حد تک نہیں بلکہ انصاف کی بات ہے ، پاکستان کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی پر کوئی خاص منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے لیکن یہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے اور یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری بالخصوص ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے ممالک اس بات کو تسلیم کریں اور اب وہ تعمیر نو، متاثرہ افراد کی بحالی میں مدد کر کے تعاون کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں قدرت کی تباہی کا سامنا ہے ، قدرت پلٹ کر تباہ کن انداز میں وار کررہی ہے ، آج پاکستان کو ان حالات کا سامنا ہے اور کل کسی اور ملک کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا اب ہمیں اخراج روکنے کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فوری کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں موسمیاتی تبدیلی ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے والے ممالک کی مدد کے لیے بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ تمام لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سب مل کر کام کریں اور سب لوگ مل کر اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کریں۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انتونیو گوتریس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد اور مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان کی کی مدد اور تعاون کے لیے ہرممکن ذرائع بروئے کار لائیں گے۔
جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ہلاکت خیز سیلاب سے تباہ حال پاکستان میں انسانی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ تقریباً 6لاکھ34 ہزار بے گھر افراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں لیکن یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہے،حالیہ مہینوں میں ریکارڈ گرمی کی لہروں سے لے کر تباہ کن سیلابوں تک، پاکستان موسمیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مون سون کی غیر معمولی بد ترین بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے پاکستان میں سوا 3 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ایک ہزار 460 سے زیادہ مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 432 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، سب سے زیادہ مراکز صحت سندھ میں تباہ ہوئے۔ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے 4ہزار500 سے زیادہ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جب کہ ڈائریا، ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور چکن گونیا کے دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ریپڈ ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلاکت خیز سیلابوں اور بارشوں نے عالمی بے انصافی کے احساس کو مزید بڑھا دیا ہے۔پاکستان جیسے ملک کا عالمی درجہ حرارت بڑھانے والی آلودہ گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ملکوں میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔
ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ قدرتی آفات ہماری زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔ ان آفات کو سنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کی شدت میں آئندہ برسوں میں بھی کمی واقع ہونے کے امکانات محض خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات کے تدارک کے لئے دو قسم کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ایسے آفات وقوع پذیر ہی نہ ہوں مگر ایسا ناممکن ہوتا ہے۔
دوسری حکمت عملی یہ کہ ان آفات کا مقابلہ کیا جائے جس کے لئے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم نے ان آفات کے ساتھ ہی رہنا ہے اس لئے ایک دیرپا حکمت عملی کے تحت ہر سطح پر قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کو قومی نصب العین بنانا ہو گا۔
تبصرہ لکھیے