ہوم << افغان طالبان کی سفارتی دشواریاں-حماد یونس

افغان طالبان کی سفارتی دشواریاں-حماد یونس

15 اگست 2021 کو جب افغان طالبان نے امریکیوں کے انخلاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے افغانستان کے بیش تر حصے پر قبضہ کر لیا تو امریکی کٹھ پتلی افغان صدر، اشرف غنی کے پاس بیرون ملک فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ رفتہ رفتہ افغان طالبان نے افغانستان کے بقیہ حصوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔

یہ بات تو امریکیوں کے انخلا سے بھی بہت پہلے دنیا جانتی تھی کہ افغانستان کے اصل اسٹیک ہولڈرز یہی طالبان ہیں۔ مگر چونکہ ملا عمر کی سابقہ حکومت سے اہل مغرب بالخصوص اور بیشتر ممالک بالعموم خوف زدہ تھے ، لہٰذا طالبان کے غلبے کو قانونی حیثیت میں تسلیم کرنے پر بیش تر ممالک نے پس و پیش سے کام لیا۔ عالمی سطح پر پاکستان وہ واحد بڑا ملک تھا جس نے افغان طالبان کا کسی حد تک خیر مقدم کیا۔

افغانستان کے دنیا بھر میں 20 قونصلیٹ اور 45 سفارت خانے ہیں، جن میں سے بیش تر میں ابھی تک سابقہ افغان حکومت کے نمائندے ہی تعینات ہیں۔ ان سب نمائندوں نے افغان طالبان سے تعاون کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابھی تک دنیا میں چار ممالک ایسے ہیں جنہوں نے افغان طالبان کے سفارتی نمائندوں کو باضابطہ طور پہ تسلیم کیا ہے۔ پاکستان، ترکمانستان، چین اور روس ۔

جبکہ افغان طالبان کے اہم رہنما سہیل شاہین کے بقول لگ بھگ دس ممالک اب تک طالبان کے نمائندوں کو تسلیم کر چکے ہیں۔جن میں پاکستان ، ایران ، سعودی عرب ، ترکمانستان، قطر ، روس ، چین ، ملائیشیا وغیرہ شامل ہیں۔ مگر قانونی طور پہ ابھی تک دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں جس نے افغان طالبان کو عالمی سطح پر تسلیم کیا ہو۔ در اصل طالبان نے مختلف ممالک سے بات چیت تو شروع کی مگر اس کے ساتھ ساتھ طالبان مختلف شرائط بھی پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تمام ممالک بھی افغان طالبان کے حوالے سے تحفطات رکھتے ہیں اور ہر ملک کی اپنی شرائط اور مطالبات ہیں۔ ایسی صورت حال میں افغانستان کی حکومت اس وقت عالمی سطح پر شدید تنہائی کا شکار ہے ۔ دنیا افغان طالبان کو دہشت گردی ، یا کم از کم دہشت گردی کی سرپرستی کے عنوان کا مظہر قرار دیتی ہے ، جس پر افغان حکومت بار ہا یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ ان کی سر زمین کسی قسم کی ایسی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہو گی جس سے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے۔ مگر بہر حال ،تمام ممالک کے مفادات ہیں ، اور تمام ممالک کی پہلی ترجیح ان کے مفادات کا تحفظ ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان کس طرح اس عالمی سطح پر تنہائی کے عالم سے نکل کر قبولیت اور مقبولیت حاصل کرتے ہیں ۔ آج کی گلوبل ولیج میں کسی بھی ملک کے لیے بیرونی دنیا اور روابط سے کٹ کر اپنا وجود برقرار رکھنا ایک تقریباً نا ممکن امر ہے۔

Comments

Click here to post a comment