ہوم << افغانستان ، بھارت اور سی پیک - حماد یونس

افغانستان ، بھارت اور سی پیک - حماد یونس

تاریخ میں بہت سے ایسے حکمران گزرے ہیں جنہیں ان کے طاقت کے جنون سے شہرت ملی۔ اسی طرح بعض ریاستیں بھی اسی اجارہ داری کے حصول کے سلسلے میں بدنام ہوتی ہیں ۔ گزشتہ صدی کے آخری حصے میں صدام حسین بھی ایسے ہی ایک کردار تھے۔ صدام نے اسی کی دہائی میں ایران سے جنگ چھیڑی۔ بعد ازاں صدام نے کویت پر بھی حملہ کیا۔ ان کو ایشیا کا پولیس مین کہا جاتا تھا۔
مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسے عالمی چوہدراہٹ کے خواب کم ہی بار آور ہوتے ہیں ۔
جنوبی ایشیا میں ایسا ہی جنون ، کئی دہائیوں سے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو بھی لاحق ہے۔
جنوبی ایشیا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان اور بھارت ، دونوں تقریباً برابر کی عسکری طاقتیں ہیں ۔ بھارت کی فوج تعداد میں بڑی ہے مگر ایٹمی ہتھیاروں نے طاقت کا توازن برابر کر دیا ہے۔ دوسری جانب خطے میں چین پاکستان کا دوست ہے ، جبکہ بھارت کا پرانا دوست، روس اب پاکستان اور بھارت کی لڑائی میں کسی حد تک غیر جانب دار ہے۔
ایسے حالات میں امن ہی اس خطے کے کسی بھی ملک کی بقا کا ضامن اور واحد قابلِ اعتنا آپشن ہے۔
مگر بھارت اپنی عادت سے مجبور ہے ۔ توسیع پسندی ، اجارہ داری اور چوہدراہٹ کے خوابوں کی تکمیل کے لیے بھارت کسی بھی حد تک جائے گا۔
خطے میں اجارہ داری کے حصول کے لیے بھارت نے بہت سے ہتھکنڈے آزمائے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جنوبی ایشیا کے نسبتاً چھوٹے ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کو تنہا کِیا جائے۔
اس سلسلے میں نیپال ، بھوٹان ، مالدیپ ، سری لنکا ، بنگلہ دیش کو مختلف حربوں سے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں بھارت نے
Carrot and Stick
کا حربہ آزمایا ، یعنی جو خریدا جا سکے ، اسے کچھ دے دِلا کر ساتھ ملا لیا جائے، اور جو بِکنے کو تیار نہ ہو تو اسے ڈرا دھمکا کر ، مار پِیٹ کر ہم نوا بنا لیا جائے۔ سری لنکا اور بھوٹان نے اس حوالے سے خاصی مزاحمت کی، البتہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت پوری طرح بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
جبکہ ، بھارت اور افغانستان کا رشتہ ، ہمیشہ سے ہی پیچیدہ رہا ہے۔ نوے کی دہائی کی تمام حکومتیں ، بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی جانب زیادہ رحجان رکھتی تھیں ۔ پھر 2001 میں امریکہ نے دہشت گردی کا الزام عائد کر کے افغانستان پر حملہ کیا اور ملا عمر کی حکومت ختم کر دی گئی۔ امریکی نواز افغان سربراہ ، حامد کرزئی کا رحجان پہلے کی نسبت بھارت کی جانب بڑھا ۔ مگر پاکستان سے بہتر تعلقات حامد کرزئی کی مجبوری تھی۔
پھر 2014 میں اشرف غنی حکومت میں آئے ۔ ان کے دور میں بھارتی اثر و رسوخ افغانستان میں خوب پھلا پھولا۔ افغانستان نے ہر معاملے میں بھارت کی ہم نوائی کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔
اس کا بڑا سبب تو بھارت کی افغانستان پر انویسٹمنٹ اور روپے کا بے دریغ استعمال تھا ، مگر اس انویسٹمنٹ کا افغان عوام کو ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوا، کیوں کہ بھارت سے ملنے والی امداد کا بیشتر حصہ تو اشرف غنی کی حکومت کے ارکان اور عہدیداران اپنی تجوریوں میں رکھ لیا کرتے تھے۔ مگر بھارت کی کاسہ لیسی کرتی یہ حکومت بہر حال بھارت سے وفاداری کا حق ضرور نبھاتی رہی۔ اسی دوران ، 2016 میں ، بھارت اور ایران کے بیچ ایک معاشی معاہدہ ، چاہ بہار کے نام سے ہوا ، جس سے بھارت اور ایران کی صنعت کو عالمی بازار تک با آسانی رستہ ملنے کے امکانات روشن ہوئے۔ بھارت نے افغانستان کو بھی اس معاہدے میں شرکت کی پیش کش کی، اور اشرف غنی کی کیا مجال تھی کہ وہ بھارت کی پیش کش ٹھکرا سکتا۔
پھر 2021 میں وہ لمحہ آیا جب امریکہ کو افغانستان سے رخصت ہونا پڑا۔ اس کے رخصت ہوتے ہی طالبان نے امریکی و بھارت نواز حکومت کا بوریہ بستر بھی گول کر دیا اور اشرف غنی بدیس سدھار گئے۔
ایسے میں ، یہ فطری امر تھا کہ پاکستان اور افغانستان اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کرتے اور ماضی کی کدورتوں کو رفع دفع کر کے دوبارہ دوستی کے اٹوٹ بندھن میں بندھ جاتے ۔ پاکستان نے افغان طالبان کا خیر مقدم کیا ، اور حال میں ہی اسے اپنے میگا پروجیکٹ ، سی پیک میں شریک ہونے کی پیش کش کی ، جس میں چین اور پاکستان دو فریق ہیں۔ اس پروجیکٹ میں شمولیت سے نہ صرف افغانستان کی معاشی صورتِ حال بہتر ہو گی بلکہ خطے میں اور عالمی سطح پر اس کا امیج بھی بہتر ہو گا۔
مگر بھارت نے تو افغانستان کی سابقہ حکومت پر 3 بلین ڈالر خرچ کر رکھے ہیں ۔ اور بنیا اپنے ایک روپے کو بھی گھاٹے میں جاتا نہیں دیکھ سکتا ، جبکہ 3 بلین ڈالرز تو دو کھرب انتالیس ارب سے زائد بھارتی روپے بنتے ہیں ، جن میں بارہ ہندسے آتے ہیں۔
لہٰذا بھارت کی مودی سرکار تو فوراً سیخ پا ہو گئی اور بھارتی وزارتِ خارجہ نے افغانستان کو متنبہ بھی کر دیا کہ سی پیک یعنی سائنو پاک اکانومک کوریڈور میں شرکت سے باز رہے۔ اس دھمکی نما پیغام میں واضح کیا گیا کہ بھارت کے پاکستان اور چین کی اس اقتصادی راہ داری کے حوالے سے بہت سے "تحفظات" ہیں۔
اب یہ گیند افغان طالبان کے کورٹ میں ہے۔ انہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان کی عوام کو ایک پر امن، خوش حال اور پر امید صبح کا سورج دیکھنا ہے یا بھارت کی اندرونی خلفشار کا شکار، ڈوبتی ہوئی کشتی کا حصہ بننا ہے۔
جبکہ بھارت کا توسیع پسندی اور خطے میں اجارہ داری کے خوابوں کا محل ، یقیناً چکنا چور ہُوا چاہتا ہے، کہ یہی ایسی امنگوں اور بے پر کی اڑانوں کی تقدیر ہے۔
صدام حسین کی مثال تو سنی ہو گی۔