بالی وُڈ میں 2018 میں ایک تاریخی فلم بنائی گئی ، جس کا نام پدماوت رکھا گیا تھا۔
اس فلم کو سنجے لیلا بھنسالی کی پروڈکشن اور ڈائریکشن میں بنایا گیا تھا۔اس کا سکرپٹ تحریر کیا تھا پرکاش کپاڈیہ نے۔
جبکہ اس فلم کا بجٹ تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ ڈالر تھا ، یعنی ساڑھے پانچ ارب پاکستانی روپے۔
پدماوت ، اس فلم کے مطابق ایک رانی کا نام تھا ، وہ رانی جس کا تذکرہ تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ اسی رانی کا نام اس فلم کا عنوان ٹھہرا۔
اس فلم کو ،بہترین تاریخی فلم قرار دیا گیا اور یہ بھارتی سینیما کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
شاہد کپور ، رنویر سنگھ اور دپیکا نے اس فلم میں اہم کردار نبھائے تھے۔ فلم بینوں نے اس فلم پر ملے جلے خیالات کا اظہار کیا لیکن مجموعی طور پر یہ ایک کامیاب اور عمدہ فلم قرار پائی۔
یہ تو تھا بالائی سطح پر اس فلم کا تجزیہ۔ اب دیکھیے اس بحر کی تہہ سے ابھرتا ہے کیا!!!
اس فلم میں بہت سے تاریخی جھول تھے۔ کئی مقامات پر تاریخ سے انحراف کیا گیا تھا۔ اور کئی مناظر کو غلط رنگ دے کر ایک الگ رخ دکھایا گیا تھا۔
سب سے پہلے ان رانی پدماوتی کو ہی لے لیجیے۔
کیا آج تک کسی مورخ نے ان کا تذکرہ کیا ہے؟ کیا کسی تاریخ کی کتاب میں ایسی کسی خاتون کا ذکر ملتا ہے؟ اس فلم میں بیان کردہ ریاست چِتّوڑ کی فتح 1303 عیسوی میں ہوئی ، جبکہ اس کے دو سو سینتیس برس بعد ایک نظم لکھی گئی ، جس میں بہت سے کردار تخلیق کیے گئے۔ انہی کرداروں میں سے ایک ، رانی پدماوتی بھی تھی۔ اس نظم کے شاعر تھے ملک محمد جائیسی۔
پچھلی چند دہائیوں میں بھارت کی جانب سے افغانوں کی کردار کشی کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے ، یہ فلم ، پدماوت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔
علاؤالدین خلجی، جنہیں بھارت کی تاریخ کا سب سے انصاف پسند حکمران تسلیم کیا گیا ہے ، اور جن کا عہد بے مثل حد تک پر امن تھا ، وہ جنہوں نے بر صغیر میں بے شمار نئی اور جدید روایات کی بنیاد رکھی۔ بالخصوص کاروباری امور پر ان کی تجدید کا جواب نہ تھا۔ انہوں نے اپنے عہد میں بڑھتے ہوئے منگول سیلاب کے آگے اپنی ہمت اور حوصلے کا مضبوط اور نا قابل تسخیر بند باندھا ، اور منگول یکے بعد دیگرے پانچ بار حملہ آور ہونے کے باوجود ، ہر بار ناکام رہے ۔ یہ وہی منگول تھے جنہوں نے بغداد کی عباسی خلافت کی بساط لپیٹ دی تھی اور خوارزم شاہی سلطنت کے خاتمے کی وجہ بنے تھے۔
بالی ووڈ نے انہی سلطان علاؤالدین خلجی کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔
اس فلم میں ان پر پہلا الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے اس نہایت حسین و جمیل رانی کے جبری حصول کی خاطر چتوڑ کی ریاست کو خروج کیا ، جس رانی کا تاریخ میں کوئی وجود ہی نہ تھا۔
یعنی ،
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
(فیض احمد فیض)
یعنی اے پیارے بالی ووڈ والو، اے نریند مودی صاحب، اے ہندو توا والو ، مانا کہ تم سب تتے توے پر بیٹھے ہو مگر اپنی افغان دشمنی کو جب بڑی سکرین پر واضح کرو تو کوئی معقول دلیل بھی تو ساتھ لاؤ۔
علاؤالدین ، ایک راسخ العقیدہ مسلم حکمران تھے ، جن کا تمام احوال غیر جانب دار مورخین نے تحریر کر دیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جو فلم میں انہیں وحشی ، جنگلی ، قاتل ، سفاک اور بد چلن حکمران ظاہر کیا گیا ہے ، اس کا ثبوت کہاں سے لایا جائے گا؟
اس بات کا ثبوت کہاں سے آئے گا کہ وہ کچا گوشت جنگلیوں کی طرح اپنے دانتوں سے کاٹ کر کھاتے تھے؟
رانی پدماوتی کے وجود کا ثبوت کیسے فراہم کیا جائے گا۔ کیا یہ کوئی کلاس پریزینٹیشن ہے ، جہاں کوئی بھی بے پر کی اڑا دی جائے ، اور کسی کو اعتراض کرنے یا دلیل مانگنےکا چارہ ہو؟ بھارتی میڈیا والے آخر فلم سازی کے ہنر کو کیا سمجھ رہے ہیں؟
جس خاتون کا وجود تک موجود نہیں ، اس کے ساتھ علاؤالدین خلجی کے ناجائز تعلقات قائم کرنے کا منظر فلم میں دکھا دیا گیا۔ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے!!!
اسی فلم میں تاریخ کے ساتھ ایک اور کھلواڑ کیا گیا ۔ سلطان علاؤالدین کو امرد پرست بتایا گیا۔ ملک کافور ، جو علاؤالدین کے سب سے دلیر جرنیل تھے ، ان کے اور سلطان علاؤالدین خلجی کے بیچ نا جائز تعلقات کا منظر پیش کیا گیا ۔ جبکہ تاریخی طور پر یہ بات کسی نے نہیں کی ۔ ازمنۂ قریب کے چند متعصب ہندوؤں کے علاوہ یہ الزام کہیں ، کبھی کسی نے بیان نہیں کیا۔ مگر پھر بھارت کی افغان دشمنی کا کیا کِیا جاتا؟
جبکہ یوٹیوب پر بھارتی انتہا پسندوں کے واضح پیغامات اور بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ پشتون سبھی امرد پرست ہیں۔ افغانستان سے آبائی تعلق رکھنے والےحکمرانوں پر ایسے بیہودہ الزامات اور کردار کشی پہ مبنی فلمیں بنانے کا کیا مقصد ہے؟
افغانستان سے بھارت کی کیا لڑائی ہے ، یہ تو بھارت ہی سمجھ سکتا ہے ، مگر دشمنی کے بھی تو آداب ہوتے ہیں ناں۔
راحت اندوری نے کہا تھا، اے خدا،دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہیے۔
مگر ، اے بسا آرزو کہ خاک شدی
تبصرہ لکھیے