ہوم << پرستان کی پریوں کی کہانیاں - حمیراعلیم

پرستان کی پریوں کی کہانیاں - حمیراعلیم

عائلہ بچپن سے ہی پرستان کی پریوں شہزادے شہزادیوں کی کہانیاں سنتی آ رہی تھی۔سنڈریلا، ایلسا، بیوٹی اینڈ دا بیسٹ اور باربی ہی اس کی آئیڈیل تھیں۔جب سے وہ کالج میں آئی تھی اس کی سپنوں اور خواہشات کی دنیا کچھ اور بھی وسیع ہو گئی تھی۔

ہر لڑکی اپنے بوائے فرینڈ یا منگیتر کی تعریف میں رطب اللسان ہوتی تھی ان کی باتیں سن سن کر اسے بھی شدید خواہش تھی کہ اس کا بھی کوئی چاہنے والا ہو۔کوئی منگیتر ہو جس سے وہ ساری رات فون پہ باتیں کرے۔مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔اس کے والد احمدلوگوں کے گھروں میں رنگ روغن کا کام کرتے تھے۔اور والدہ زینب گھر پہ کپڑے سیتی تھیں تب جا کے گھر کا گزارہ ممکن ہوتا تھا۔ایک دن احمد کی طبیعت خراب ہو گئی انہیں فوری ہاسپٹل لیجایا گیا۔ڈاکٹر نے بتایا :"کہ ان کے دل کے دو والو بند ہیں مگر شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے یہ اتنے کمزور ہیں کہ ہم سرجری کا رسک نہیں لے سکتے۔"

چنانچہ ڈھیروں دوائیں اور احتیاط بتا کر گھر روانہ کر دیا گیا۔پہلے جو تھوڑی بہت آمدنی ان کے کام کی وجہ سے گھر آتی تھی وہ بھی ہاتھ سے گئی۔ اس کے تایا چچا نے فیصلہ کیا کہ انہیں جائیداد سے ان کا حصہ دے کر گھر بنوا دیا جائے۔چنانچہ سب نے مل کر انہیں پندرہ لاکھ دے دیئے اور تین مرلے کا ایک پلاٹ لے کر اس پہ دو کمروں کا ایک گھر بنا دیا۔آٹھ بہن بھائیوں میں تقسیم شدہ ایک گھر میں سے پندرہ لاکھ ملنا بھی غنیمت تھا مگر اتنے میں گھر تو بن نہیں سکتا تھا لہذا عائلہ کے والدین کو دوست احباب سے ادھار لینا پڑا۔یوں پچیس لاکھ میں ان کو چھت تو میسر آ گئی مگر روزگار بالکل ہی ٹھپ ہو گیا۔زینب کو جو سلائی کے لیے کپڑے ملتے تھے وہ بھی بند ہو گئے۔ان حالات میں اس کی بڑی پھپھو اور زینب کے میکے والوں نے بہت مدد کی۔وہ نہ صرف مہینے کا سودا سلف لا دیتے بلکہ کچھ پیسے بھی بہن کو دے جاتے۔

لیکن بیماری نے اس کے والد کو بدمزاج اور چڑچڑا کر دیا تھا۔وہ چھوٹی چھوٹی بات پہ بھڑک اٹھتے اور بیوی بچوں سے جھگڑنے لگتے۔ایک دن ایک خاتون کپڑے سلوانے ان کے گھر آئیں۔تو زینب نے ان سے کہا:" باجی میں اور میرے شوہر شوگر کے مریض ہیں۔دونوں کاکام بند ہو گیا ہے۔آج کل حالات بہت خراب ہیں۔اگر آپ اپنے ہمسائے اورخاندان میں بات کر کے مجھے کچھ کام دلوا دیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔" خاتون نے ان کی حالت دیکھی تو بہت افسوس ہوا۔انہوں نے کچھ لوگوں سے کہہ کر نہ صرف زینب کو اچھے خاصے کپڑے دلوا دئیے۔بلکہ گھر میں راشن بھی ڈلوا دیااور دوائیں بھی لے دیں۔ زینب کو کسٹمرز سے بات چیت کے لیے موبائل چاہیے تھے۔ان کی بہن نے انہیں اپناموبائل دے دیا۔عائلہ کابڑا بھائی ثوبان نہ تو پڑھائی میں دلچسپی لیتا تھانہ ہی کوئی کام کرتا تھا۔لیکن اپنے فیشن اور چسکوں کے لیے پیسوں کامطالبہ کرتا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک دن اس نے ماں سے پیسے مانگے:

" امی مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پہ جانا ہے دوہزار دے دیں۔" اس نے بدتمیزی سے کہا توماں تپ گئیں :" کچھ اندازہ بھی ہے تمہیں دوہزار کتنی بڑی رقم ہے۔اور گھر کے کیا حالات ہیں کہاں سے لاؤں دوہزار کہ تم پکنک پہ جاو۔بجائے میرا ہاتھ بٹانے کے تم مجھے تنگ کرتے رہتے ہو۔"یہ سن کر ثوبان بولا:" سلائی کے پیسوں کا کیا کرتی ہیں آپ؟ان میں سے دیں مجھے۔"

" شاباش ! بیٹا تمہارے خیال میں میں سلائی کے پیسوں سے خود عیاشی کرتی ہوں۔یا اپنے میکے میں پیسے بھیجتی ہوں۔یہ جو دال روٹی چل رہی ہے۔لوگوں کا قرضہ اتر رہا ہے کیا تمہاری کمائی سے ہو رہا ہے سب؟؟" یہ سن کر ثوبان نے غصے سے انہیں دیکھا اور چارجنگ پہ لگا موبائل اٹھا کر دیوار پہ دے مارا۔موبائل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر گیا۔" تیرا ستیاناس ثوبان۔بدتمیز اب میں کسٹمر سے کیسے بات کروں گی۔یہ کیا کر دیا تو نے کمبخت۔" ماں نے روتے ہوئے دہائی دی۔مگر ثوبان اپنا غصہ موبائل پہ نکال کر جا چکا تھا۔ عائلہ اپنے گھر کے ماحول میں گھٹن محسوس کرتی تھی۔اور راہ فرار چاہتی تھی۔اسے امید کی کرن اس دن دکھائی دی جب اس کی خالہ نے اپنے کیپٹن بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگا۔وہ ہواؤں میں اڑنے لگی۔مگر اس کے سارے خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب اس کے والد نے انکار کر دیا۔" میں اپنی بیٹی اتنی دور نہیں بیاہ سکتا۔کراچی سے لاہور جانا آنا ایک مسئلہ ہے۔"

" میں بھی تو لاہور سے بیاہ کر کراچی آئی تھی۔دیکھیں ہمارے جو حالات ہیں ان میں ایسا رشتہ ملنا خوش بختی ہے۔پھر میری بہن جہیز بھی نہیں لے گی۔" زینب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔مگر وہ اڑ گئے۔اس کی والدہ نے بہن کو ٹال دیا :"ابھی عائلہ پڑھ رہی ہے کچھ عرصے بعد دیکھیں گے۔" ان کا خیال تھا کہ شاید میاں مان جائیں ۔عائلہ نے اپنی دوستوں سے اس رشتے کا ذکر کیا۔" میرے کزن آرمی میں کیپٹن ہیں جلد ہی میری ان سے منگنی ہو جائے گی۔"

" سچ میں! ہائےعائلہ کتنی لکی ہو نا تم۔تصویر دکھاو نہ اپنے کزن کی۔" اس کی دوستوں نے تجسّس اور رشک سے کہا تو اس نے بتایا کہ تصویر تواس کے پاس نہیں مگر جلد ہی وہ کہیں سے لے کر انہیں دکھا دے گی۔اب اس کے پاس بھی مستقبل کے خواب بننے اور سہیلیوں کےسامنے شیخیاں بگھارنے کےلیے اور موضوع تھا۔ اس کی امی کی بہن نے انہیں ایک بار پھر موبائل لے دیا تاکہ وہ آسانی سے کام جاری رکھ سکیں۔ایک رات ثوبان پیاس کی وجہ سے رات کو پانی پینے اٹھا تو عائلہ کو ماں کے موبائل پہ میسج کرتے پایا۔ثوبان نے وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔اس نے دہاڑتے ہوئے عائلہ کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا:" اس وقت کس کو میسج کر رہی ہو؟" اور موبائل میں میسجز پڑھنے لگا۔جوں جوں وہ میسجز پڑھ رہا تھا توں توں اس کا پارہ ہائی ہوتا جا رہا تھا۔عائلہ اپنے اسی کزن کے ساتھ چیٹ کر رہی تھی جس کا پرپوزل آیا تھا۔

ثوبان نے اسے چٹیا سے پکڑ کر گھسیٹا:" یہ کیا ہے؟ جانتی ہو نا ابو نے فہد کے رشتے سے انکار کر دیا ہے پھر تم اس سے عشق کی پینگیں کیوں بڑھا رہی ہو؟" اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ والدین اور چھوٹا بھائی بھی اٹھ گئے۔ماں کے استفسار پر ثوبان اسی پر چڑھ دوڑا:" جیسی ماں ویسی بیٹی۔کہا تھا نا کہ آپ موبائل نہ رکھیں۔اب دیکھ لیا نتیجہ۔"" ہوا کیا ہے؟ جو تم رات کے دو بجے ہنگامہ مچا رہے ہو؟" ماں نے کہا تو ثوبان نے عائلہ کے میسجز اسے پڑھوا دئیے۔ماں ہکا بکا اسے دیکھنے لگیں۔" عائلہ یہ کیا کیا تو نے؟" انہوں نے روتے ہوئےکہا۔ثوبان نے باپ کو مخاطب کیا: " ابو امی سے موبائل لے لیں اور بیچ دیں ورنہ یہ دونوں ماں بیٹی کوئی چاند چڑھا دیں گی۔"

" تم کون ہوتے ہو میرا موبائل بیچنے والے۔پہلے بھی تم نے میرا موبائل توڑ دیا تھا۔کیا یہ تمہارے باپ کی کمائی سے آیا ہے؟" انہوں نے تو محاورتا کہا تھا مگر احمد کو یہ بات تازیانے کی طرح لگی۔آو دیکھا نہ تاو اورجو چیزہاتھ میں آئی بیوی پہ برسانے لگے۔عائلہ نے بچانے کی کوشش کی تو اسے دھکا دے کر ہٹا دیا۔ثوبان تو شاید یہی چاہتا تھا۔کمرے سے نکل کر اس نے اپنے دونوں ماموں، تینوں خالہ اور نانی کو فون کر کے کہہ دیا۔" ابھی آ کر اپنی بدکردار بہن کو لیجائیں ورنہ میں اسے دھکے دے کر نکال دوں گا۔"

" کیا بکواس کر رہے ہو؟ دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تمہارا۔جس کے بارے میں بات کر رہے ہو وہ تمہاری ماں ہے۔اور تم کب سے اتنے بڑے ہو گئے کہ ہماری بہن کو گھر سے نکالو۔ابھی تمہارا باپ زندہ یے۔" بڑے ماموں نے اسے کھری کھری سنائیں ۔اس نے جواب دینے کی بجائے فون بند کر دیا۔ فون اپنی جیب میں ڈالا اور اندر گیا تو دیکھا ماں بیٹی اور چھوٹا بھائی باپ کے پاس کھڑے روہے تھے۔باپ زمین پہ بیہوش پڑا تھا۔" کیا ہوا ابو کو؟" اس نے بہن سے سوال کیا تو اس نے بتایا:" ابو امی کو مارتے مارتے بیہوش ہو گئے ہیں۔"ثوبان دوڑا دوڑا سامنے تایا کے گھر گیا انہیں جگا کر ساری بات بتائی۔تایا اور ان کے بیٹے کے ساتھ باپ کو ہاسپٹل لے کر گیا۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ بی پی شوٹ کر گیا ہے۔

بروقت ہاسپٹل پہنچنے کی وجہ سے جان تو بچ گئی مگر کچھ دن ہاسپٹل میں رکھنا پڑے گا۔ گھر میں عائلہ نے ماں کو پانی دیا اور چارپائی پہ بٹھایا وہ زاروقطار رو رہی تھیں ۔" امی بس کر دیں پلیز۔" اس کے کہنے پہ ماں نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔" عائلہ تم میری بیٹی ہو مجھے لگا تھا تم میری جدوجہد کی گواہ ہو کم ازکم تم تو میرا ساتھ دو گی۔مگر تم نے تو میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔پچھلے اکیس سال سے میں سسرال اور شوہر کے ظلم اور مصائب صرف اور صرف اپنے بچوں کہ خاطر سہہ رہی تھی۔مجھے امید تھی کہ میرے بچے میرا مان رکھیں گے عزت دیں گے میرا سہارا بنیں گے مگر بیٹا ہے تو وہ نکما ناکارہ اوپر سے ماں پہ ہاتھ اٹھانے کو تیار۔اور تم تم نے بھی مجھے رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔"عائلہ شرمندہ تو تھی مگر کچھ بولی نہیں۔

صبح صبح اس کے بڑے ماموں جو کہ لاہور میں ہی رہتے تھے آ گئے اور پوچھا:" کیا تم دونوں میں کوئی جھگڑا ہوا تھا؟"عائلہ کی امی کے بولنے سےپہلے ثوبان نے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے ماں بہن پہ الزامات کی بوچھاڑ کرتےہوئے انہیں بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ماموں ساری بات سن کر بولے:" برخوردار ! تمہاری ماں کو تمہارے باپ کے ساتھ رہتے اکیس سال ہو گئے ہیں۔اگر یہ بدکردار ہوتی تو کب کی اپنے شوہر کو چھوڑ کر جا چکی ہوتی۔یوں سلائی کر کے تم لوگوں کو پال نہ رہی ہوتی۔ایک تو ہماری بہن کو عذاب میں ڈال رکھا ہے تم لوگوں نے اوپر سے تم بچے بھی اس کے سر پہ مسلط ہو رہے ہو۔تمہیں جرات کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں بکواس کرنے کی۔

ابھی تو تمہارا باپ زندہ ہے تو تمہاری اتنی ہمت ہے کہ تم آدھی رات کو ہمیں فون کر کے دھمکیاں دے رہے ہو۔کل کو خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو تم لوگ تو ہماری بہن کو مار ہی ڈالو گے۔میں اپنی بہن کو لے کر جا رہا ہوں۔تم جانو اور تمہارا باپ جانے۔چلو زینب اپنے کچھ کپڑے بیگ میں ڈالو اور میرے ساتھ چلو۔" بھائی نے بہن کے نیل سے بھرے چہرے پہ نظر ڈالتے ہوئے مگر زینب نے روتے ہوئے کہا:" بھائی احمد ہاسپٹل میں ہیں بچے اکیلے کیسے رہیں گے؟"
" خوب تمہیں ابھی بھی ان کی پرواہ ہے۔ذرا آئینے میں اپنی شکل دیکھو کیا حشر ہو گیا ہے تمہارا۔آج تو میں تمہیں لے کے ہی جاؤں گا۔سلائی کر کے تم بجائے چار لوگوں کا بوجھ اٹھانے اور پھر ان سے ذلیل ہونے کے وہی کمائی خود پہ لگانا اور سکون سے زندگی بسر کرنا۔" بھائی کے اصرار پر زینب ان کے ساتھ چلی گئیں۔اب عائلہ ثوبان اور ان کے باپ کو سمجھ آیا کہ زینب ان کے لیے کیا تھیں۔

تایا نے سرکاری ہاسپٹل میں بھائی کو داخل تو کروا دیا مگر پلٹ کر خبر بھی نہ لی۔پھوپھی نے پیسے تو دئیے مگر ملنے نہ آئیں۔تیسرے دن ثوبان باپ کو گھر لے آیا۔" تمہاری ماں کہاں ہے؟" احمد کے سوال پر ثوبان نے اسے بتایا کہ کیا ہوا تھا۔" اچھا ہے جان چھوٹ گئی ہماری۔رہے چار دن اپنے بھائی کے گھر تبھی اسے ہماری قدر آئے گی۔" احمد کو زعم تھا کہ اس نے زینب کو بہت خوشگوار زندگی دی تھی۔اور اس کے میکے والے اسے چند دن بھی نہ رکھ سکیں گے جبکہ حقیقت تو یہ تھی۔کہ زینب کے میکے والے اگر مدد نہ کرتے تو عائلہ پائی پائی کو ترس جاتی۔کچھ دن تو آرام سے گزر گیے۔عائلہ کالج سے آ کر کھانا بنا لیتی۔گھر کی صفائی کپڑے دھونا سب اس کے سر پہ آن پڑا تھا۔ان کی آنکھیں اس دن کھلیں جب راشن ختم ہو گیا اور بجلی گیس پانی کے بل آئے۔

" ابو پیسے دے دیں بل جمع کروا آوں۔" ثوبان کے کہنے پہ احمد نے چونک کر اسے دیکھا۔" پیسے۔۔۔۔بل۔۔۔۔" " ابو سودا بھی سارا ختم ہو گیا ہے۔" عائلہ نے اطلاع دی۔" مگر میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔جاو دیکھو ماں نے الماری میں پیسے رکھے ہوں گے۔وہاں سے لے لو۔"

" انہیں پیسوں سے آپ کی دوائیں لایا تھا ابو۔" ثوبان کے دھیمے سے کہنے پہ احمد پژمردہ سا چارپائی پہ لیٹ گیا۔" اب کیا ہو گا ابو؟" عائلہ نے پوچھا۔احمد کچھ دیر تک خاموش رہا پھر ثوبان کو مخاطب کیا:" اپنی پھپھو کے ساتھ جاو اور ماموں کے گھر سے ماں کو لے آو۔"

" مگر ابو۔۔۔۔آپ تو کہہ رہے تھے۔۔۔۔" ثوبان نے اعتراض کرنا چاہا تو احمد نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔

" جو کہا ہے وہ کرو۔" ثوبان آہستہ سے اٹھا پھپھو کے گھر جا کر انہیں ساتھ لیا اور ماموں کے گھر پہنچ گیا۔

" کیسے تشریف لائے آپ لوگ؟" ماموں نے سوال کیا توپھپھو بولیں:" بھائی صاحب! احمد اور بچے شرمندہ ہیں زینب سے معافی مانگنے آئے ہیں۔آپ بھی غصہ تھوک دیجئے اور اسے گھر بھیج دیجئے۔بیٹیاں اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔"

ماموں نے ہنکارا بھرا:" ہمم! آپ کی آمد کا شکریہ بہن جی۔لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ہماری بہن نے آپ کے بھائی کے گھر میں کبھی سکھ کی سانس نہیں لی۔جیٹھ جیٹھانی، دیور نند سب کی باتیں بھی سنیں اور خدمت بھی کی۔صرف اپنے بچوں کی خاطر۔اور وہ بچے بھی اسے مارنے لگیں اسے بدکردار کہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جوان بچوں کے سامنے ماں کو دھنک کر رکھ دیا جائے اور بچے ماں کو چھڑوانے کی بجائے اس کے میکے والوں کو دھمکیاں دیں۔" ماموں نے تلخ لہجے میں کہتے ہوئے ثوبان کو گھورا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔

" میں مانتی ہوں بھائی صاحب۔احمد اور بچوں نے ذیادتی کی ہے مگر اب یہ شرمندہ ہیں۔آپ بھی معاف کر دیجئے آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔" انہوں نے ثوبان کو ٹہکا دیتے ہوئے کہا تو ثوبان نے ماموں سے معافی مانگی اور ماں کو بھیجنے کی درخواست کی۔" شاید پیسے ختم ہو گئے تم لوگوں کے پاس تبھی ماں یاد آ گئی ورنہ بیس دن سے وہ یہاں ہے تم میں سے کسی کو فون پہ اسکا حال تک پوچھنے کی توفیق نہ ہوئی۔"ماموں کا غصہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ ثوبان اور پھپھو چپ چاپ بیٹھے رہے۔ماموں نے آواز دے کر زینب کو بلایا:" آو بھئی تمہاری نند اور صاحبزادے آئے ہیں تمہیں لینے۔مہینہ شروع ہو گیا ہے انہیں پیسوں کی ضرورت ہو گی۔جاو ایک بار پھر جا کر کوہلو میں جت جاو۔ان کی خدمت کرو کھلاو پلاو اور پھر ان کے جوتے بھی کھانا۔"

پھپھو نے زینب کو گلے لگایا اور منت سماجت کی:" زینب بچے اور احمد بہت پریشان ہیں۔چلو میں تمہیں لینے آئی ہوں۔"" آپا میں وہاں نہیں جاوں گی۔بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔میرا پورا جسم نیل و نیل تھا میں دس دن بخار میں پھنکتی رہی کسی کو فون تک کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔میں نے آپ کے بھائی سے کبھی کچھ نہیں مانگا بس تھوڑی سی عزت چاہی تھی وہ بھی اکیس سالوں میں نصیب نہ ہوئی۔میرے بچے مجھے بدکردار کہتے ہیں۔" زینب روہانسی ہوئیں " جن کے لیے میں نے سب کچھ چپ چاپ سہا انہیں بھی میرا احساس نہیں تو پھر میں کیوں جاوں اس گھر میں۔میں بھائی کے گھر میں ہی ٹھیک ہوں۔" پھپھو نے بہت کوشش کی مگر زینب نہ مانیں۔

وہ دونوں ناکام و نامراد واپس لوٹے تو احمد نے بے تابی سے پوچھا:"آگئی زینب؟" " نہیں ابو! امی اب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔" ثوبان نے افسردگی سے کہا تو احمد نے ڈبڈباتی آنکھوں سے کہا:" صحیح کیا اس نے ہم نے ہی اسے اس فیصلے پہ مجبور کیا ہے۔"عائلہ پاس ہی فرش پہ بیٹھی سوچ رہی تھی " سب میری غلطی ہے۔پرستان کی کہانیاں صرف کتابوں کی حد تک ہی اچھی لگتی ہیں۔حقیقی زندگی میں تو میری ماں جیسی شہزادیاں سسرال اور شوہر جیسے ظالم جنوں کی قیدی ہوتی ہیں۔نہ میں سہیلیوں کی باتوں سے ۔تاثر ہو کر فہد سے بات چیت کرتی نہ میری ماں کو گھر سے نکلنا پڑتا۔"

ٹیگز

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment