ہوم << تمام سیاسی فرقوں سے بچ کر اور دور رہیں! حافظ محمد زبیر

تمام سیاسی فرقوں سے بچ کر اور دور رہیں! حافظ محمد زبیر

جب لوگ حق کی تلاش میں ہوں گے تو حق ملے گا۔ لیکن جب تلاش ہی دلیل کی ہو گی تو دلیل ہی ملے گی۔ آج ٹوئٹر پر ایک آیت دیکھنے کو ملی جو نون لیگ والے پی ٹی آئی کے حکومت مخالف لانگ مارچ کے حوالے سے بطور دلیل پوسٹ کر رہے ہیں۔ اور یہ وہی آیت تھی جو چند سال پہلے پی ٹی آئی والے مثلا فواد چوہدری وغیرہ تحریک لبیک کے حکومت مخالف احتجاج کے خلاف بطور دلیل پوسٹ کر رہے تھے اور اس پوسٹنگ کی اسکرین شاٹس بھی آج گردش کر رہی ہیں۔

سورۃ البقرۃ میں ہے: “وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لاَّ يَشْعُرُونَ” (البقرة؛ 11-12) ۔ ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین می فساد مت برپا کرو تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والوں میں سے ہیں۔ خبردار، یہی لوگ فسادی ہیں لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔

مسئلہ دلیل کا نہیں بلکہ دل کا ہے۔ وہ دل ہی نہیں ہے جو دلیل کو سمجھ سکے یا جس پر دلیل کا اثر ہو۔ ایک ہی آیت مبارکہ ہر سیاسی فرقہ دوسرے پر چسپاں کر رہا ہے۔ اور یہی مذہبی فرقوں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کی سیاسی لڑائیاں اٹھا کر دیکھیں تو اسی طرح سے ایک دوسرے پر آیات چسپاں کرتے رہے ہیں۔ جو حکومت میں تھے، وہ دوسروں کو باغی قرار دیتے رہے۔ اور جو حکومت مخالف تھے، وہ جہاد کی آیات نقل کرتے رہے اور حکمرانوں کو فرعون وقت کہتے رہے۔

ایسے حالات میں ماضی میں بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا موقف یہی تھا کہ یہ وہی فتنے ہیں کہ جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ڈرایا ہے بلکہ صحیح بخاری کا آج کل ہم کتاب الفتن کا مطالعہ کر رہے ہیں اور امام بخاری کتاب الفتن میں آغاز میں ہی مسلمانوں کی خانہ جنگی سے متعلق روایات لے کر آئے ہیں گویا کہ انہوں نے امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہی اسے قرار دیا ہے کہ مسلمان فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف مذہب کی بنیاد پر لڑائی یا نام نہاد جہاد کریں۔

پس ان سب سیاسی فرقوں سے علیحدہ رہیں۔ لیکن ان سے علیحدگی کا مطلب یہ نہیں کہ ان سب کے خلاف ایک اور مذہبی فرقہ بنا لیں اور پھر سیاسی خوارجیوں کی طرح مذہبی خوارجیوں کا بھی ایک نیا جتھہ وجود میں آ جائے۔ اس کے نتائج بھی ہم ماضی میں بھگت چکے ہیں۔ بس ان حالات میں سائیڈ پر ہو کر بیٹھیں۔ یہ کوئی کفر ایمان کی جنگ نہیں ہے۔ اس جنگ میں شریک ہونا کوئی جہاد نہیں ہے بلکہ اس فساد سے دور رہنا شرعی فریضہ ہے۔ جسے کوئی شک ہو تو آج ہی صحیح بخاری سے کتاب الفتن کی شروع کی احادیث کا مطالعہ کر لے۔ خاص طور ان صحابہ کی رائے جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں دونوں طرف سے شمولیت کے قائل نہیں تھے اور اسے فتنہ سمجھتے تھے اور اس فتنے یعنی مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال سے علیحدگی کو شرعی فریضہ سمجھتے تھے۔

یہ وہ تیسرا نکتہ نظر ہے جو بد قمستی سے اس امت میں عام نہیں ہو سکا حالانکہ کبار صحابہ کی ایک بڑی جماعت اس کے حق میں تھی کہ ایسے حالات میں کسی کا ساتھ دینا بھی درست نہیں ہے کہ اس سے خانہ جنگی کی آگ بھڑکتی ہے اور عرب بہار (Arab spring) کا نتیجہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اب بہت سے عرب ممالک میں صرف خزاں ہے، وہ یمن ہو یا شام، چار چار حکومتیں بن چکی ہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک پولیس کانسٹیبل مارا گیا ہے۔ جنہوں نے مارا، ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت نے مروایا ہے۔ نہ وہ گھر میں داخل ہوتا، نہ مارا جاتا۔ اور حکومت کا کہنا ہے کہ شر پسندوں نے مارا ہے کہ گھر میں داخلہ قتل کرنے کے لیے نہیں، گرفتاری کے لیے تھا۔ وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے جو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دہرائی گئی تھی۔ دلیل دونوں کے پاس ہے۔ مسئلہ دلیل کا نہیں دل کا ہے۔ مسلمان کے پاس وہ دل ہی کہاں کہ جس پر دلیل اثر کرے۔

سب کے پاس اپنی اپنی دلیل ہے اور اس دلیل سے دوسرے کا جان مال حلال کرنے کے چکر میں ہیں۔ عافیت اسی میں ہی ہے کہ اس سارے فتنے سے علیحدہ رہا جائے۔ ان حالات میں جو فتنہ ختم کرنے باہر نکلے گا، وہ خود فتنے کا شکار ہو جائے گا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق یہی بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہی تھی کہ جس نے انہیں کہا تھا کہ امت لڑ رہی ہے اور آپ بیت اللہ میں بیٹھے عبادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کیا تھا کہ فتنہ ختم ہو جائے اور وہ ہو گیا۔ اب جس قتال کی تم بات کر رہے ہو تو وہ فتنہ ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اور مسلمانوں کی باہمی لڑائی سے بڑھ کر فتنہ کیا ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب

Comments

Click here to post a comment