ہوم << اسلام کے ابتدائی قدم - فہد کیہر

اسلام کے ابتدائی قدم - فہد کیہر

وسطِ ایشیا میں بھی اسلام اُسی زمانے میں پہنچا، جس میں سندھ اور اسپین میں پہنچا تھا۔ یہ آٹھویں صدی کے اوائل کا زمانہ تھا جب مسلمانوں کا اقتدار با ضابطہ طور پر اِس خطے پر قائم ہوا البتہ یہاں عربوں کی آمد خلافتِ راشدہ ہی کے زمانے میں شروع ہو چکی تھی۔ تب چند نا پائدار فتوحات بھی حاصل کیں تو کچھ شکستیں بھی کھائیں۔ انہی دنوں کی ایک شخصیت ایسی ہے جنہیں سمرقند میں وہی مقام حاصل ہے جو ترکی کے شہر استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا ہے۔

ایوب سلطان اور شاہِ زندہ

حضرت ابو ایوب انصاریؓ وہ صحابی ہیں جنہیں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ آمد پر اُن کی میزبانی کا عظیم شرف حاصل ہوا تھا۔ سال 674ء میں حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کا دور میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا تھا، اس مہم میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے۔ محاصرے کے دوران وہ بیمار پڑے اور پھر یہیں انتقال کر گئے۔ وصیت کے مطابق آپ کو قسطنطنیہ شہر کی دیوار کے قریب دفن کیا گیا۔ آج اِسی مقام پر اُن کا مزار واقع ہے۔ قسطنطنیہ میں کون ایسا تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد اسے ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے قریب نہ دفنایا جائے؟

استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار

بس کچھ یہی داستان حضرت قثم بن عباسؓ کی بھی ہے۔ آپ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کے بیٹے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وصال کے بعد جن لوگوں نے حضورؐ کے جسد مبارک کو لحد میں اتارا تھا، ان میں سے ایک حضرت قثمؓ تھے۔ آپ سمرقند کو فتح کرنے کی ابتدائی کوششوں کے دوران شہید ہوئے اور پھر یہیں دفن ہوئے۔

آج بھی وسطِ ایشیا کے مسلمان حضرت قثم بن عباسؓ کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ جس طرح حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو ترکی میں "ایوب سلطان" کہا جاتا ہے، بالکل ویسے ہی حضرت قثم بن عباسؓ کو وسطِ ایشیا میں "شاہِ زندہ" پکارا جاتا ہے، ہمارے الفاظ میں کہیں تو "زندہ پیر"۔

حضرت قثم ابن عباسؒ کے مزار کا گنبد

تیموری سلطنت کے دَور میں حضرت قثمؓ کی قبر کے گرد شاہی خاندان کے کئی افراد کے مزارات بنے۔ اس قبرستان میں تدفین کو بڑا شرف سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ قبرستان سمرقند کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں سےایک ہے۔

وسطِ ایشیا میں داخلے کی چابی

وسطِ ایشیا میں اسلام کے داخلے کی چابی تھی فتحِ ایران۔ مسلمانوں نے 651ء میں ساسانی سلطنت کا خاتمہ کر کے یہ چابی حاصل کر لی تھی۔ قادسیہ اور نہاوند کی عظیم لڑائیوں کی بدولت ساسانی حکومت حضرت عمرؓ کے دور ہی میں ختم ہو چکی تھی۔ اس سلطنت کا آخری بادشاہ تھا یزدگرد سوم، جو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کے بعد بھاگ نکلا۔ مسلمان اس کے تعاقب میں مرو (Merv) تک پہنچے، وہی شہر جو آج ترکمنستان میں ہے۔ یہاں سے آمو دریا صرف چند دنوں کے فاصلے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم مرو کو وسطِ ایشیا کا داخلی دروازہ سمجھتے ہیں۔ ترکمنستان میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ جدید اصطلاح کے مطابق بھی وسطِ ایشیا میں آتا ہے۔

‏651ء میں حضرت عثمانؓ کے دور میں احنف بن قیس کو خراسان فتح کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہاں کا شہر رے پہلے ہی مسلمانوں کے پاس تھا اور نیشا پور نے بھی بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے۔ احنف نے قدم آگے بڑھائے اور ہرات پر قبضہ کر لیا۔ وہی ہرات جو اب افغانستان میں واقع ہے۔ پھر اگلا ہدف تھا مرو، خراسان کا دارالحکومت، جو بغیر کسی جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا۔

پھر 651ء میں معرکۂ آمو دریا پیش آیا، جس میں بالآخر ساسانیوں کو آخری اور فیصلہ کن شکست ہوئی اور یزدگرد بھاگ نکلا۔ اب مسلمانوں کی سرحدیں اُس آخری مقام تک پہنچ گئی تھیں جہاں سے آگے فارسی نہیں بلکہ ترک سرزمین شروع ہوتی تھی۔ حدِ فاصل تھا آمو دریا۔

قدیم شہر مرو کے دو مشہور قلعوں کے آثار

اس خطے میں فارسی بولنے والے بڑی تعداد میں آباد تو تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہاں مکمل ایرانی اقتدار قائم ہو گیا ہو۔ انتظامی لحاظ سے ساسانی کبھی یہاں وہ گرفت حاصل نہیں کر سکے، جیسی انہیں ایران کے علاقوں پر حاصل تھی۔

یہ علاقہ ماورا النہر کہلاتا تھا، جس میں کئی چھوٹی موٹی ریاستیں تھیں، کچھ شہروں کے گرد قائم تھیں تو چند پہاڑی قلعوں میں۔ اِن کے علاوہ ترک قبائل کی خیمہ بستیاں بھی تھیں جو موسم کے لحاظ سے جگہ بدلتی رہتیں۔ یہ سب مشرق میں چین کی سرحد تک پھیلا ہوا تھا۔

مسلم فتوحات کے چار مراحل

یہ علاقہ اُس زمانے کے قدرتی وسائل سے مالا مال تھا، لیکن یہاں کے خانہ بدوش جنگجو ایسے تھے کہ ان پر قابو پانا اور مکمل قبضہ کرنا آسان نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی اس علاقے پر قابض نہیں ہو پایا۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں مسلمانوں کی آخری حد آمو دریا ہی رہی اور اس کے پار پہلی کوشش بنو امیہ کی حکومت کے دوران کی گئی۔

ہمارے ہاں ایران، عراق، ملکِ شام، مصر بلکہ اسپین کی فتوحات کا ذکر بھی خوب ہوتا ہے، لیکن وسطِ ایشیا سے تو ہماری تاریخ کا براہِ راست اور واضح تعلق ہے، اس کے باوجود عام طور پر لوگ نہیں جانتے کہ اس خطے میں اسلام کیسے آیا۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات میں سب سے مشکل اور طویل ترین فتح اصل میں وسطِ ایشیا ہی کی تھی۔

وسطِ ایشیا کو فتح کرنے میں مسلمانوں کو کتنا عرصہ لگا؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ مرو 651ء میں فتح ہوا تھا جبکہ آمو دریا کے پار آخری فیصلہ کُن جنگ 751ء میں ہوئی تھی، یعنی پورے 100 سال لگے۔

ہم ان فتوحات کو چار مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں، جن کا ابتدائی مرحلہ تھا سن 650ء سے 705 ء تک کا۔ اس دوران کئی عرب گورنروں کی آمد ہوئی، جنہوں نے مرو (Merv) کو اپنا مرکز بنایا۔ ان کی فوجیں آمو دریا کے پار چھاپہ مار کار روائیاں کرتیں، اور پھر سردیوں سے پہلے مرو واپس آ جاتیں یعنی انہوں نے کبھی وسطِ ایشیا پر مستقل قبضہ نہیں کیا۔ بہرحال، پہلے گورنر عبد اللہ بن عامر تھے جو حضرت عثمانؓ کے دور میں بصرہ کے حاکم بنے اور خراسان کی جانب فتوحات کو مزید آگے بڑھایا۔

اسلام کی آمد کے موقع پر وسط ایشیا اور اس کے علاقے

پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں عظیم فاتح قُتیبہ بن مسلم نے وسطِ ایشیا میں بڑی اور مستقل کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ 705ء سے 715ء کا زمانہ ہے۔ بالکل وہی دور جس میں سندھ اور اسپین میں بھی مسلمانوں کو فتوحات ملیں۔

قتیبہ نے طخارستان، سغدیہ اور خوارزم کو فتح کرنے کی کوششیں کیں اور بخارا اور سمرقند جیسے بڑے شہروں میں چھاؤنیاں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان علاقوں کے بارے میں ہم آپ کو آگے بتائیں گے۔

اسی دوران مسلم فتوحات کے ایک تیسرے مرحلہ بھی شروع ہوا، جس کا آغاز 716ء سے ہوتا ہے اور یہ تقریباً 737ء تک جاری رہتا ہے۔ اس میں عرب حکمرانوں کو ترکوں اور ان کے اتحادیوں کی سخت بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ چوتھا اور آخری دور آتا ہے، 737ء سے 751ء تک کا، جس میں دو عرب گورنروں اسد بن عبد اللہ اور سب سے بڑھ کر نصر ابنِ سیّار نے مقامی حکمرانوں کے ساتھ مصالحت کی اور بالآخر ماورا النہر پر عرب اقتدار تسلیم کر لیا گیا۔

لیکن یہ ماورا النہر کا علاقہ ہے کیا؟ یہ کون سی نہر سے آگے کی بات ہو رہی ہے؟ آمو دریا کی اہمیت اور اس کے ساتھ واقع اہم ترین تاریخی علاقوں کے بارے میں ہم اگلی قسط میں جانیں گے۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment