اس وقت ہر طرف سے فوری الیکشن کے مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ مریم نواز فرماتی ہیں کہ حکومت چھوڑیں اور الیکشن میں جائیں۔ مولانا فضل الرحمن کہے چلے جارہے ہیں کہ فوری الیکشن ہونا چاہئے ۔عمران خان اسلام آباد دھرنے کی دھمکی دے کر نئے الیکشن کی تاریخ مانگ رہے ہیں۔
حکومت ِ وقت دوراہے پر کھڑی ہے ،کہ سخت فیصلے کرے یا الیکشن کروائے ۔ شاید ہر ایک نے سمجھ لیا ہے کہ نیا الیکشن امرت دھارا ثابت ہوگا۔ آئی ایم ایف کو پاکستان پر ترس آجائے گا اور وہ اپنی کڑی شرائط کو نرم کردے گا۔ ہمیں گمان ہوچلا ہے کہ جیسے ہی ووٹ کی پہلی پرچی پڑے گی،ساتھ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ ہم اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ اُدھر الیکشن کا اعلان ہوگا ، اِدھر امریکہ اور سعودی عرب میں تیل کی قیمتیں گرجائیں گی۔ ہمارا یہ وہم بھی ہے کہ الیکشن کا نقارہ بجتے ہی ذخیرہ اندوز اور منافع خور حوصلہ ہار بیٹھیں گے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں فوری طورپر گرجائیں گی ۔ چینی ،آٹا،دالیں،گوشت اس قدر وافر اور سستے ہوجائیں گے کہ لوٹ سیل شروع ہوجائے گی۔
ڈالر کی پریشانی دیکھنے کے لائق ہوگی اور وہ پاکستانی روپے کے آگے ہاتھ باندھے گڑگڑاکر اپنی اونچی اڑان کی معافیاں مانگ رہا ہوگا۔ قصہ مختصر،ہم اس خواب میں مست ہیں کہ فوری الیکشن ہوگیا تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اپنی جگہ پر میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں نیا الیکشن ملک کو 1970ء کے الیکشن کے جہنم میں نہ دھکیل دے ،تب ایک بہت ہی صاف شفاف،منصفانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن ہوا تھا۔ یحییٰ خان نے اس الیکشن کے انعقاد پر ہر ایک سے داد وصول کی ، مگر ملک کو بے دادکی صورتحال پیش آگئی۔ اس الیکشن کے نتائج کو نہ بھٹو نے مانا، نہ شیخ مجیب نے ۔ بھٹوکو مغربی پاکستان اور شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل ہوئی تھی،دونوں وزارت ِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے دعوے دار تھے، مگر کرسی ایک تھی اور دعویدار دو۔نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کو الگ الگ کرسی فراہم کرنے کیلئے پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔ کیا خدانخواستہ پاکستان میں نیا الیکشن اسی صورتحال پر منتج ہوگا؟
الیکشن سے مسائل حل ہوسکتے ہوں تو الیکشن 2018ء میں بھی ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں اس شخص کو حکومت ملی تھی جو آج فوری الیکشن کا مطالبہ کررہا ہے۔ نئے الیکشن کاایک اعلان عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس جاری کرکے کردیا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ اس ایڈوائس کے مطابق الیکشن ہوا کیوں نہیں؟ آج اگر کوئی نئی ایڈوائس جاری کرکے الیکشن کروایا جاتا ہے تو صورتحال میں جوہری فرق کیا پڑے گا۔ الیکشن تو الیکشن کمیشن نے کروانا ہے یا نگران حکومت نے کروانا ہے ۔ مگر آج اتحادی حکومت چاہتی ہے کہ وہ ضروری آئینی انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن کروائے۔ اس حکومت کی سوچ یہ ہے کہ مشینی ووٹنگ کا خاتمہ کیا جائے ، کہ یہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہے ،اور ہمارا ان پڑھ ووٹر اس پراسیس کو استعمال نہیں کرپائے گا۔
ساتھ ہی تارکین ِ وطن کے ووٹ کا حق بھی واپس لیا جاسکتا ہے اور ان کو مطمئن کرنے کیلئے انہیں مخصوص سیٹیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی اوورہالنگ کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے ۔ان کاموں کیلئے اتحادی حکومت کو وقت چاہئے۔ آئینی اصلاحات پلک جھپکنے میں نہیں کی جاسکتیں،ان کیلئے سوچ بچار کی سخت ضرورت ہوتی ہے ۔ پھر نیا مالی سال بھی سرپر ہے، اس کیلئے بجٹ بھی بنانا ہے۔ بجٹ کسی جادو کی چھڑی سے نہیں بن سکتا،اس کیلئے وسائل درکار ہیں،اور کچھ دماغ لڑانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کیلئے بھی اتحادی حکومت کو وقت چاہئے ۔مگر عمران خان تلا بیٹھا ہے کہ جیسا ہے، جہاں ہے، کی بنیاد پر بس الیکشن کروادیئے جائیں۔ ایسا الیکشن دما دم مست قلندر کا منظر پیش کرے گا۔
اتحادی حکومت آسمانی بجلی کی طرح ملک پر نازل نہیں ہوئی ۔ برسوں کی کوششوں کے بعد اس نے آئینی طریقے سے عمران خان حکومت کو ووٹ آئوٹ کیا اور اسکی ساری وکٹیں گرادیں۔اس مقصد کیلئے تحریک عدم اعتماد کا راستہ اختیار کیا گیا اور یوں ایک اتحادی حکومت معرضِ وجو د میں آئی۔ اتحادی حکومت اصولی طور پر بقایا ڈیڑھ سال کی آئینی ٹرم کیلئے وجود میں آئی ہے۔ اس حکومت کی تشکیل کسی نگران حکومت کے طور پر نہیں ہوئی تھی۔ نہ ڈنگ ٹپائونظریئے کے تحت یہ معرض وجود میں آئی ،مگر اس حکومت کے راستے میں کانٹے ہی کانٹے بکھیرے جارہے ہیں ۔ عدلیہ کا احترام اپنی جگہ ، مگر عدلیہ کو سوچنا ہوگا کہ کوئی حکومت چلے گی تو ملک چلے گا۔ سرکاری افسروں کی تقرریاں اور تبادلے اتحادی حکومت کا آئینی اختیار ہے ۔ مگراس پر سو موٹو نوٹس لئے جارہے ہیں ۔ اتحادی حکومت پر دبائو ہے کہ بس وہ الیکشن کا اعلان کرے اور گھر جائے ۔ اس وقت کوئی آئین ، کوئی ضابطہ پیش نظر نہیں رکھا جارہا۔ بس واحد گردان ہے کہ قوم نئے الیکشن میں چلی جائے ۔ اورمیرے نزدیک یہ و ہ گرداب ہے جس سے قوم باہر نہیں نکل سکے گی۔
میرے تحفظات بلا وجہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں آج تک جتنے الیکشن ہوئے ، انہوں نے ملک کا کچھ سنوارا نہیں، البتہ بگاڑ ضرور پیدا کیا ہے۔ آئی جی قربان علی نے جھرلو الیکشن کروایاتو ملک پر ایوب خان کا مارشل لاء مسلط ہوگیا۔ ایوب خان نے صدارتی الیکشن کروایا تو ملک پر 1965ء کی جنگ مسلط ہوگئی۔یحییٰ خان نے بزعم ِ خویش منصفانہ الیکشن کروایا تو ملک دولخت ہوگیا۔ بھٹو نے الیکشن کروائے تو ضیاء الحق مسلط ہوگیا۔ ضیاء الحق نے غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کروائے ، مگر اپنے ہی ہاتھوں تخلیق کردہ جونیجو حکومت کو گھر بھیج دیا۔ اور خود ضیاء الحق کا اقتدار ایک طیارہ حادثے میں پاش پاش ہوگیا۔ بعد ازاں بار بار الیکشن ہوئے، بار بار حکومتیں بنیں اور بار بار حکومتیں ٹوٹیں۔ سیاستدان اس قدر کمزور ہوگئے کہ مشرف کا مارشل لاء مسلط ہوگیا۔
جنرل مشرف نے الیکشن کروائے تو ملک پر دہشت گردی کی جنگ اگلے 20سال کیلئے مسلط ہوگئی۔اسی دہشت گردی کی جنگ کے سائے میں ہم تین الیکشن کرواچکے ہیں، تینوں الیکشنوں کے نتیجے میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی ٹرم پوری نہیں کرسکا۔ تو جناب والا ! ایک اور الیکشن کروانے کا شوق پورا کرکے دیکھ لیجئے، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
تبصرہ لکھیے