عدم برداشت اور نفرت کے ہاتھوں سیاست میں سب سے پہلے سیاسی مکالمے کی موت ہوئی۔ نیو ملینیم کے آغاز میں چینلوں کی لہلہاتی فصل پروان چڑھی، خوبصورت لب و لہجے میں اردو بولتے میزبان چینلوں کے کلچر میں ٹی وی اینکر ہوگئے .
اور سیاسی ٹاک شوز ایک اکھاڑے میں بدل گئے جہاں گفتکو کی بجائے طعنوں کے گھونسے ایک دوسرے کو مارے جاتے ہیں۔ بعض اوقات شرکائے گفتگو ایسی تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں کہ ٹی وی سکرین ان کی شعلہ بار گفتگو سے دھواں دھواں ہونے لگتی ہے۔ بچے جب یہ سب تماشا دیکھ کر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ بڑے اس طرح لڑائی کیوں کر رہے ہیں ، ایک دوسرے کے بات کیوں نہیں سنتے تو والدین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ پاکستان کے تہذیب یافتہ ،باشعور اور پڑھے لکھے والدین اپنے بچوں کے سامنے سیاسی ٹاک شوز بھی دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح باشعور اور تہذیب یافتہ مائیں اپنے بچوں کو ساتھ بٹھا کر اب پاکستانی ٹی وی ڈرامے دیکھنے سے گریز ہی کرتی ہیں کیونکہ جس طرح ڈراموں میں رشتوں کا تقدس پامال کیا جارہا ہے ، پاکستانی عورتوں کو خاندان میں زہر گھولنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں اسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ استثنیٰ یقینا موجود ہے اچھے ڈرامے بھی پیش کیے جاتے ہیں لیکن بیشتر ڈرامے ریٹنگ کے لیے غیر معیاری اور غیر اخلاقی مواد ہی پیش کرتے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ایک مقررہ اخلاقی معیار سے نیچے بات کرنے کا یہ رجحان صرف ڈراموں اور سیاسی ٹاک شوز تک محدود نہیں رہا ،بازاری سوچ اور تہذیب سے عاری گفتگو سیاسی رہنماؤں کی تقریروں میں بھی جھلکنے لگی ہے۔ نوے کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی مخاصمت عروج پر تھی۔ اس زمانے میں ن لیگ کے سیاسی جلسوں میں محترمہ نظیر بھٹو کی کردار کشی کی جاتی تھی۔ قد آور خاتون سیاستدان کے حوالے سے غیر اخلاقی الفاظ بولے جاتے تھے۔ خیر سے اس دور میں یہ کام راولپنڈی کے شیخ صاحب سر انجام دیا کرتے تھے۔ پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے میثاق جمہوریت ہوا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ سیاست تو اپنے اپنے نظریات اور مفاد کے مطابق جاری ہے مگر 90 کی دہائی کا بغض اور نفرت اب دونوں جماعتوں کے قائدین میں سرایت کرنے لگا ۔ اس کا اثر نیچے تک دونوں جماعتوں کے سیاسی کارکنوں تک پہنچا۔ اسی جمہوری ماحول کا ثمر ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی مخالفین کو دشمن نہیں بس سیاسی مخالفین ہی تصور کرتی ہیں جن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ موجود رہے۔
موجودہ سیاسی سیٹ اپ اچھا یا برا اسی ورکنگ ریلیشن شپ کا نتیجہ ہے۔ سیاستدان اپنے مفاد کیلئے گٹھ جوڑ بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے مطابق اپنے لئے راستے نکالتے رہتے ہیں، یہی ان کی سیاست ہے۔نوے کی دہائی میں جس بدترین سیاسی مخاصمت کا اظہار ہوتا رہا اب وہ ہمیں پاکستان تحریک انصاف کے انداز سیاست میں نظر آتا ہے۔ آج کل روزانہ ہی سیاسی جلسوں کے منڈپ سجائے جاتے ہیں۔ کہنے کو نیا ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے یہ کہ سیاسی مخالفین کے خوب لتے لیے جائیں۔مریم نواز بھی کپتان کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔سیاسی جلسوں میں اس قسم کے دشنام طرازی اور سخت الفاظ کا استعمال اب عام رواج پا چکا ہے۔مگر اخلاقیات کا ایک دائرہ ایسا ضرور ہے جسے کوئی بھی پار نہیں کرتا۔ملتان میں ہونے والے سیاسی جلسہ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مریم نواز کے حوالے سے جو غیر اخلاقی تبصرہ کیا وہ ہمارے سماج کی بنیادی اخلاقیات کے دائرے کو کراس کرنے کی کوشش ہے ،جس کی مذمت خود پی ٹی آئی کے وہ حامی بھی کر رہے ہیں.
جن کی تربیت کی بنیاد تہذیب اور تمیز پر رکھی گئی ہے ۔ یہ الفاظ صرف ایک مخالف خاتون سیاسی رہنما کے بارے میں نہیں بلکہ یہ سوچ اس بات کی عکاس ہے کہ آپ کے ذہن میں خواتین کی عزت کا معیار کیا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے جلسوں میں خواتین بڑی تعداد میں آتی ہیں، لوگوں کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں موجود ہیں ۔ان کی موجودگی میں آپ کس قسم کی سوچ کا اظہار کر رہے ہیں۔آپ دوسروں کے لئے بلند اخلاقی معیار طے کرتے ہیں اور خود آپ جب چاہیں اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر کچھ بھی کہہ لیں۔ آپ کو اجازت ہے کہ آپ مخالف خاتون رہنما کی سیاسی چالاکیوں اور سیاسی مفاد پرستیوں کے خلاف جی بھر کے بولیں لیکن بنیادی اخلاقیات کی یہ حد ہرگز پار نہ کریں۔ عمران خان بڑے فخر سے دعوی کرتے ہیں کہ ان کے فالوورز میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔
کیا کبھی انہوں نے سوچا ہے کہ وہ بلا سوچے سمجھے اپنے جلسوں میں جو کچھ بول دیتے ہیں اس کا اثر ان کے فالور نوجوانوں پر کیا ہوتا ہوگا۔ اگر آپ اچھی اخلاقیات اور اعلی تہذیبی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کی اس سوچ کا عکس آپ کے فالوورز میں آئے گا ۔ 126دن کے دھرنے میں عمران خان کو کنٹینر پر چڑھ کے دن رات بولتے دیکھا ۔جو زبان خیر سے انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کی اس کے بعد ان سے کچھ بھی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
ایک لیڈر اپنی ذات میں کبھی تنہا نہیں ہوتا وہ جو کرتا ہے، جو سوچتا ہے، جو بولتا ہے اس کا اثر اس کے لاکھوں فالورز پر پڑتا ہے۔ ان کی سوچ اس کے حامیوں کے ذہنوں کو بناتی یا بگاڑتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ بات کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ حدیث قدسی ہے اچھی بات کرو یا خاموش رہو۔ ہمارے سیاستدانوں کو تہذیب ، تمدن اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر بات چیت کرنے کے کریش کورسز کروانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ان کی لایعنی تقریروں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
تبصرہ لکھیے