یہ نوحہ ہے ان لوگوں کا جو روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔
یہ مرثیہ ہے ان لوگوں کا جن کی اپنی مرضی ہے نہ کوئی خوشی۔
یہ کہانی ہے ان لوگوں کی جن کے قدم قدم پر مصائب و مشکلات ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہر گھڑی اور ہر ساعت بے یقینی میں گزارتے ہیں نہ جانے شیطان کب اور کیسے اپنے ابلیسی منصوبے پر عملدرآمد کر جائے۔ یہ لوگ دردوں کے مارے مگر بلند ہمت ہیں - ان لوگوں کی زندگی پیچیدہ اور سنگین ضرور ہے مگر یہ شاکی نہیں۔ جی ہاں یہ لوگ کنٹرول لائن کے رہائشی ہیں۔ جو شادی میں ہو ں یا غمی میں کسی اندھی گولی کے نشانے پر رہتے ہیں۔گزشتہ روز انڈین فوج نے کئی ایک سیکٹرز پر بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں لوگوں کا جانی و مالی نقصان ہوا مگر کوئی طاقت نہیں جو انڈیا کے بپھرے ہوئے سانڈ کو لگام دے۔ یو این او اور نہ ہی او آئی سی اس زمینی شیطان کو ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن کی خلاف ورزی سے نہیں روک سکتے۔ ایل او سی کے باسی نسل در نسل غربت و افلاس کی زندگی بسر کررہے ہیں، ایسا نہیں کہ ان لوگوں کے پاس ہنر نہیں، ایسا نہیں کہ یہ لوگ محنت سے جی چراتے ہیں نہ جی نہ بلکہ یہ صحت مند، حسن کے پیکر سخت ترین کام کے عادی ہیں۔ سوال تو یہ ہے یہ لوگ فصل لگاتے ہیں، زمینی شیطان گولے پھینک کر آگ لگا دیتا ہے، یہ لوگ جانور پالتے ہیں، زمینی شیطان ان کی گائے بھینس کو بھی زد میں لے آتا ہے۔
ایل او سی کے باسی شاکی تو نہیں سوالی ضرور ہیں۔ ایسا کیوں ممکن نہیں جس سے ان کی زندگی محفوظ ہو جائے۔ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ یہ اپنے بچوں کو اطمینان سے تعلیم دلوا سکیں؟ کیا ملک کے لامحدود وسائل پر صرف حکمران طبقے کا حق ہے؟ ایسا کیوں ممکن نہیں کہ انکو ایل او سی سے محفوظ مقامات پر منتقل کر کے مالکانہ حقوق دیے جائیں؟ کیا سرکاری جگہوں پر بڑے بڑے بلڈرز اور بالا نشین طبقے کا ہی حق ہے؟
خدارا کچھ غور کریں کہ یہ المیہ ہے، ایسے لوگوں کا جو روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے