ہوم << استعماری در اندازی اور ہمارے حکمران : محمد عمر صدیق

استعماری در اندازی اور ہمارے حکمران : محمد عمر صدیق

عمر صدیق
اکیسویں صدی کا آغاز یورپ نے ایسے آمرانہ جمہوری انداز میں کیا کہ پوری دنیا بالعموم اور مسلم دنیا بالخصوص جس کے منفی نتائج کا شکار ہوئی. عالمی استعماری تعصب کے جواب میں انتہا پسندانہ رد عمل نے جنم لیا. اور دیکھتے ہیں دیکھتے پوری دنیا عدم تحفظ کی لپیٹ میں آگئی. امریکی عالمی تجارتی مرکز اور دفاعی مرکز پر 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے جو رویہ غریب اور محکوم اقوام کے خلاف روا رکھا وہ اپنے تباہ کن نتائج کے لحاظ سے انتہائی اندوہناک ہے. بجائے اس کے کی 9/11 کے واقعات کے ذمہ داران کا درست کھوج لگا کر دنیا کے سامنے حقیقت لائی جاتی امریکہ نے ان حملوں کو مذہبی جنگ قرار دے دیا. اور بجائے اس کے کہ اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں اور معاشی و اقتصادی حکمت عملی کا جائزہ لیا جاتا امریکی انتظامیہ نے عملا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول لیا. جو اصل میں سوچی سمجھی منصوبہ بندی اور new world order کی عملی تعبیر کے حصول کی کوشش تھی. کہ communism کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو اسلام سے خطرہ ہے. پھر اسی کی بنیاد پر افغانستان اور عراق پر حملے، القاعدہ کا غیر حقیقی وجود منظر عام پر لایا گیا اور دنیا کو اس غیر مرئی خطرے سے خوف زدہ کر کے اپنے حصار میں جھکڑا گیا. طالبان، القاعدہ، داعش، اسلامی انتہا پسندی، شدت پسندی اور رجعت پسندی کی اصطلاحات استعمال کر کے اپنے توسیع پسندانہ مفادات کو جواز مہیا کیا گیا. اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے کمزور ملکوں کی قیادتوں کو ساتھ ملا کر کہ جنہیں پہلے ہی اقتدار پر براجمان رہنے کیلئے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی، ان ملکوں کو غنڈہ گردی اور دہشتگردی کی آماجگاہ بنایا گیا.
پاکستان اس سلسلے میں امریکہ کا سب سے بڑا شکار رہا ہے. پاکستان کی قیادتوں پر امریکی اثرو رسوخ شروع سے ہی موجود رہا ہے. لیکن مشرف کے دور میں پاکستان میں امریکہ کا غیر معمولی عسکری اثرورسوخ بنایا گیا. اور بعد کی حکومتوں نے تا حال اس رسوخ کو مزید رسائی دی ہے. آج عملا صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی پالیسی سے لیکر عسکری اور جنگی حکمت عملی تک میں امریکی اثرورسوخ نمایاں نظر آتا ہے. حکمرانوں کی کرسی کی مضبوطی کا انحصار اس پر ہے کہ حکومت کے امریکہ کے ساتھ مراسم کی نوعیت کیا ہے؟
باقی دنیا میں بھی نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر میں مرسی کی جمہوری حکومت اس وقت اپنا جواز کھو دیتی ہے جب امریکی مفادات سے متصادم اقدام کرے. عراق کے ہنستے بستے شہر صرف اس لیے قبرستان بنا دیے گئے کہ شک گزرا کہ عراق خطرناک جنگی ہتھیار بنانا چاہتا ہے. بعدازاں ثابت ہوا کہ امریکہ کا یہ شک درست نہیں تھا اور ایسے کوئی ہتھیار نہیں بن رہےتھے. شام کی خانہ جنگی میں امریکی دست ہنر اب کوئی ڈھکی چھپی بحث نہیں.
اسکے علاوہ دنیا کے تقریبا انچاس ممالک میں امریکی افواج براہ راست موجود اور بظاہر "قیام امن " کے نام پر وہاں کے امن کو تہہ و بالا کر رہی ہیں. امریکی معیشت میں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اسلحہ کی فروخت ہے. اور ظاہر ہے اسلحہ کی فروخت جنگ اور جنگی ماحول کی متقاضی ہے. یہ جنگ اور تناو دنیا کے اندر برقرار رکھنا امریکہ کی سب سے بڑی ترجیح ہے.
نیو ورلڈ آرڈر کے عملی اظہار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ امریکہ جہاں خود موجود نہیں وہاں وہ اپنے واچ ڈاگ (watch dog ) کے ذریعے کنٹرول رکھے. بھارت، اسرائیل، برطانیہ اور دیگر امریکی واچ ڈاگز کی عملی صورتیں ہیں.جو اپنے اپنے خطوں کے سیاسی اور عسکری میدانوں میں اپنی اپنی بالا دستی کے خواہاں ہیں. اور new world order کی راہ میں آنیوالی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں. بھارت کی پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی امریکہ کی بھارت کو اسی تھپکی کا شاخسانہ ہے.
پاکستان کی قیادت سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کے عوام کی بنتی ہے کہ عنان حکومت میں بیٹھے اس ٹولے کا محاسبہ کم از کم ووٹ کی پرچی کے ذریعے ضرور کرے کہ جن کے اقتدار کی کرسی کو امریکی خوشنودی کے ذریعے تقویت ملتی ہے. اور اس مداری گری سے بھی بچا جائے جو چوک چوراہوں پر جمگھٹا لگا کر مغربی تہذیب کے اطلاق کے لیے کوشاں ہے.

Comments

Click here to post a comment