انسان روز مرتا ہے اور روز ہی زندہ بھی ہو جاتا ہے۔ موت زندگی کی اصل طاقت ہے۔ اُس کی خوراک ہے۔ ہمارا سسٹم اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ ہرچوبیس گھنٹے کے اندراُسے موت کی ایک خوراک لازمی چاہیے۔
ہم اپنے آپ کو مضبوط جان کر اس 'بیماری یا معذوری' سےلڑنےکی اکثر کوشش کرتے ہیں اورکڑوی دوا سے بچنےکے لیےان چوبیس گھنٹوں کو مزید کئی گھنٹوں تک محیط کرنے میں بسا اوقات کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ حیات بخش اورکیف آورخوراک ہے جو چند لمحوں کو سہی ہر دکھ درد سے بیگانہ کردیتی ہے۔ اور تو اور ہر قسم کی بھوک سے نجات دلا کر اتنا معصوم اتنا بےجان بنا دیتی ہے کہ بڑے سے بڑا ظالم وجابر فرشتوں جیسا دِکھتا ہے تو دُنیا کی خدائی کا دعوے دار بھی عام چیونٹی سے زیادہ بےبس ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ عارضی موت کی اس خوراک کے بعد انسان پہلے سے بھی زیادہ جوش و ولولے سے اپنی مثبت یا منفی صلاحیتوں سے کاسۂ لیس ہو کر زندگی کے میدانِ کارزار میں اُترتا ہے۔
جیسے دعا دی جاتی ہے کہ ہر روز روزِعید ہو تو ہر رات شبِ برات۔اسی طرح دیکھا جائے تو ہر روز کی رات شبِ محشر ہے اور ہر رات کا بستر قبر کی منجمد تنہائی اورتاریکی کا استعارہ بھی ہے۔ ہم ایسا نہیں سوچتے اور سوچنا بھی نہیں چاہیے۔اگر اس سوچ کا آسیب ذہن ودل پرمسلط ہو جائے تو ہم نہ اس دُنیا کے رہیں گےاور اپنی ذات سے وفا بھی نہ کرپائیں گے۔ ہماری بےخبری آکسیجن کی صورت غیر محسوس طریقے سے راہ ِحیات پر گامزن رکھتی ہے۔ لیکن اس بےخبری کو غفلت اور بے حسی کی چادر میں نہیں لپٹنا چاہیے ورنہ انسان فرعون بن جاتا ہے اورہرنسل میں جبروقہر کی علامت بن کر زندہ رہتا ہے یہاں تک کہ تاریخ کے اوراق میں باعثِ عبرت بن کر رقم ہو جاتا ہے۔ اگر ہراُترتی شب ہم اپنا محاسبہ نہ بھی کر سکیں تو سال کا آخری روز پورے سال کے اعمال کا جائزہ لینے کو کافی ہوتا ہے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں کم از کم ایک دن تو ایسا آتا ہے جب اتنی بڑی کائنات میں وہ دن صرف ہمارا ہوتا ہے۔۔۔
ہمارا جنم دن ۔۔۔۔۔ اگر اس روز ہمارا احساس نہ جاگے ایک پل کو بھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کیوں اس دُنیا میں آئے؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ تو اس سے بڑی زیارتی اپنے آپ کے ساتھ اورکوئی نہیں ۔ بے شک اس سوال کا جواب ہمیں کبھی نہیں ملتا اور نہ ہی ہم اس کو جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ پر کسی سوال کا جواب نہ ملنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ سوال لایعنی ہے۔ ”سوال ہمارے وجود کے شجر سے پھوٹتی وہ نرم ونازک کونپلیں ہیں جو خیال کی بارش کے بعد نمودار ہوتی ہیں اور اِسے سرسبز بناتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو ٹنڈ منڈ درخت نہ سایہ دیتے ہیں اورنہ ہی بارآور ہوتے ہیں“۔
اہم یہ ہے کہ اس روز اپنے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے،اپنے آپ کو وقت دیا جائے۔اور ہم اس کے برعکس اپنے آپ کو فراموش کر کے اپنی خوشیاں دوسروں کی آنکھوں میں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے پیاروں کے احساس میں وہ ہمیں ضرور ملتی ہیں لیکن جتنی خوشی ہم اپنے آپ کو دے سکتے ہیں اتنی شاید کسی کا بڑے سے بڑا تحفہ بھی نہیں دے سکتا۔ ”سکون“ وہ نعمت وہ تحفہ ہے جو اپنے جنم دن کی صبح بستر سے صحت اور سلامتی کے ساتھ اٹھنے کے بعد ملتا ہے۔اگر ہم اس پل اس خوشگوار احساس کو محسوس کر سکیں۔
”سوال ہمارے وجود کے شجر سے پھوٹتی وہ نرم ونازک کونپلیں ہیں جو خیال کی بارش کے بعد نمودار ہوتی ہیں اور اِسے سرسبز بناتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو ٹنڈ منڈ درخت نہ سایہ دیتے ہیں اورنہ ہی بارآور ہوتے ہیں“۔
جنم دن سالگرہ کا دن بھی کہلاتا ہے۔ گزرتے سال جو کھویا جو پایا اُس کو گرہ کی صورت ذہن نشیں کر لینا آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ماضی کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنے والے نہ صرف حال سے مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مستقبل کے وسوسے اوراندیشے بھی کسی پل چین نہیں لینے دیتے۔ سالگرہ کے بعد آنے والا اگلا دن ہمارا ایک نیا جنم دن ہوتا ہے جس میں آنے والے سال کے خواب ہمارے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں ۔ خواب اور حقیقت کے مابین فاصلہ رکھنا ہی اصل کمائی اوراہلیت ہے۔ جن کے خواب زندہ رہتے ہیں حقیقت کی دُنیا میں بھی پوری تابندگی کےساتھ جگمگانا اُن کا مقدر ہے۔ ورنہ محض خواب دیکھنے والی آنکھیں عمل سے دور اپنی ذات کی اسیر ہوجاتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے