حضرت گھمن کی داستاں کیا چھڑی کے بس چھڑتی ہی چلی گئی۔ نفوس کا تزکیہ کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ چھڑجانے والی داستاں میں صرف کیے گئے الفاظ سے کیا جا سکتا ہے۔ جس کا منہ جس طرف تھا ”حق“ جانتے ہی، دنیا کو باخبر کرنےشرق و غرب جا نکلا۔ آقاﷺ کی امت مانا گنہگار ہوسکتی ہے، پر اس کی تاریخ شاید ہے کہ اس نے ایسی ”سچائیاں“ دنیا بھر میں پھیلانے میں کبھی کوتاہی نہیں برتی۔ حضرت گھمن کی داستاں میں، ملزم کو مجرم باور کر کے پھر اسےذلیل کر گزرنے میں دامے درمے سخنے ہر ممکن جتن کرگزرنےکی کئی داستانیں چھپی ہوئی ہیں۔ اب توجناب گھمن کی داستان ہمارے اخلاقی وجود کا ٹیسٹ کیس بن چکی ہے۔ وہ سچ، جو نفس کی نا آسودہ آرزؤں کو آسودہ کرنے کے کام لایا جانے لگے، سچ یہ ہے کہ اس کی سچائی کا رنگ کجلا جاتا ہے۔ پھر یہ حق، نفسانی آلائشوں میں لتھڑتے لتھڑتے، حق یہ ہے کہ بس حق نہیں رہتا۔ میں قائل کی نیت و احساسات میں جھانک نہیں سکتا، البتہ کہے گئے الفاظ کی وضع قطع سے بہت کچھ بھانپ سکتا ہوں۔ میں اپنے بھانپنے کو حسنِ ظن سے الجھنے کی اجازت نہیں دے سکتا، البتہ کھٹکتی بات پراحباب کو متنبہ کر سکتا ہوں۔ سچ محض بولی جانے والی شے نہیں کہ بس جیسے تیسے بول دیا جائے۔ سچ وہ اعلیٰ اخلاقی قدر ہے جسے پوری سچائی کے ساتھ بولنا پاکیزہ پر لازم ہے۔ جو سچ، سچی طبیعتوں سے نہ پھوٹے سچ جانیے کبھی ثمرآور نہیں ہوسکتا۔ سچ جیسی پاکیزہ خصلت کی باگ نفسانی جذبات کو تھما دی جائے تو سچائی کے بہکے پھرنے کے نمونے یوں رقم ہو کررہتے ہیں۔ اخلاقی پستی کو شعار بنا لینے والی قوم سچائی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے محروم رہ جاتی ہے۔ حضرت گھمن کی داستاں سنانے سے پہلے، ہر زبانِ حق بیاں پر لازم تھا کہ کسی شتابی سے پہلے اپنی ذمہ داری کا گہرا ادراک کرتی۔ ایسےاہلِ زباں، مسلماں بھی ہیں تو لازم تھا دین و شریعت کی رہنمائی پانے کو سنجیدہ ہوجاتے۔ لگے ہاتھوں بہت کچھ کہہ گزرنے کے وسیع تر امکانات کے ہوتے ہوئے بھی ”قائم بالقسط“ رہنے کی خو اپناتے کہ معاملہ کسی گھمن کا نہیں دین و خدا کا ہے۔ مگر جب سماج کا شعار ہی افراط و تفریط کی مثالیں رقم کرنا ٹھہر چکے تو اس غدر کے موقع پر محمود و ایاز کو نفسا نفسی کے عالم میں ایک ہی رنگ میں کیوں نہ دیکھا جاتا؟ تو قوم اپنی، وحدت کے اظہار کا یہ موقع بھی گنوا کر کیا کافر ہو کر مرتی ؟
قبل اس سے کہ تمہیں مجھے ”گھمنی“ و ”غیرگھمنی“ میں تقسیم کرنے کا تردد سہنا پڑے، وضاحت کیے دیتا ہوں کہ مجھے زین العابدین کی نواسی اور اپنی معصوم بہن کا دوپٹا حضرت گھمن کی دستار سے زیادہ محترم ہے۔ بات تقدس ہی کی کر لیجیے تو مجھے زین العابدین کی نواسی کے جذبات کے تقدس کا بھرم جناب گھمن کی عظمتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ مجھے مبینہ جرم کی قباحت سمجھانے کےدرپے ہونے کی زحمت نہ کیجیے کہ جانتا ہوں ایسا جرم، ہر حیوانی پستی سے گزر کر ہی کہیں صادر ہو پاتا ہے۔ مجھے کسی صاحب ِدستار سے، دستار سمیت اس پستی میں اتر جانے پر بھی کوئی تردد نہیں۔ دستار بردار، ان پستیوں تک اتر جانے کا محض امکان ہی نہیں اک شاندار تاریخ بھی رکھتے ہیں۔ مجھے خبر ہے کہ ہم نے جو اخلاقی وجود کو ذلیل کر کے مار ڈالا تھا، اس پر مزار کی تعمیر کی سعادت خاصانِ خدا کا ہی نصیب بنی تھی۔ اس مزار کی گدی نشینی پر انہیں کا بلاشرکتِ غیرے حق ہے کہ یہ معرکہ انھی کے دم قدم سے سر ہوا تھا۔ یہ تم ہو کہ تمہیں دستار میں فرشتے دکھتے ہیں۔ پھر جب وہ ویسے نہیں نکلتے تو حیرت میں کھڑے رہتے ہو۔ میرا معاملہ مگر اس سے سوا ہے۔ دستار و جرم کی شناسائی مجھے حیرت میں نہیں ڈالا کرتی۔ وجہ یہی کہ مجھے ان دونوں کی تعلق داری کی برسوں سے خبر ہے۔ مدت ہوئی کہ سفید رنگ کی جبہ پوشی سے مجھے اب اخلاقی نورانیت کا دھوکا نہیں ہوتا۔ میں ہر صاحبِ دستار کو بھی تقدس مآب باور کرنے میں تامل کر گزرتا ہوں۔ میں تقدس اور اس کے اجزائے ترکیبی کا عینی شاہد ہوں۔
حضرت گھمن پہ ہی آجائیے تو احباب باخبر ہیں کہ حضرت کی بےتکاں، زبان ِحق بیاں پر صاف صاف باتیں کئی بار کہہ گزرا ہوں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جناب گھمن کا طوطی چپ ہونے کو نہ آتا تھا اور میں ابھی مدرسے کا طالب علم تھا۔ مدرسے کا جواں اخلاص جناب گھمن کے روبرو سر بسجود ہونے کو مچل اٹھا کرتا تھا۔ عین انہی لمحات میں ان عظمتوں کا منکر یہی راقم نامراد ہوا کرتا تھا۔ معلوم ہے، آج یہ سماج جو آگ کی زد میں ہے، اس میں بڑا حصہ خاصانِ خدا کا ہی ہے۔ ہمارے اردگرد پھیلی یہ آگ جن پھونکوں کے دم قدم سے شعلہ بار ہوتی گئی، ان پھونکوں میں توانا پھونک جناب گھمن کی بھی ہے۔گو ان کی زود پشیمانی نے انہیں نرم گفتاری پر آمادہ تو کیا پر سماج کو ابھی ان جیسوں کی شعلہ بیانیوں کی قیمت چکانے میں عمر کھپے گی۔ مجھے فقیہانِ حرم کی بے توفیقی کی بھی لمحہ بہ لمحہ خبر ہے۔ میں ان مبارک گھڑیوں سے بھی آشنا ہوں ،جب دیکھتے ہی دیکھتے یہ بے توفیقی، بد توفیقی میں بدل جاتی ہے۔ مجھے وہ حیلے تراشنے میں گھسے دماغوں پہ بھی رحم آجایا کرتا ہے۔ دل اتنا پتلا ہو چکا کہ بس اب انبیاء کے ورثاء کے فرامین ستانے اور خامشی کھانے لگتی ہے۔ عین قیام کےلمحوں میں انہیں سجدہ ریز ہوتا دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے چند جوانوں سے کہوں، ایندھن جمع کریں اور ان کے گھروں میں آگ لگا آئیں۔یہ المیہ اپنی جگہ مگر مان لیجیے کہ اخلاقی پستی ہمارا مذہبی نہیں قومی شعار ہے۔ المیوں کی جڑ یہی ہے کہ ہمارے رسولﷺ کی یہ امت اگر متفق ہے تو بس اخلاقی وجود کو کچل دینے پر ہی۔ اس معرکے میں داد شجاعت سمیٹنے کے جملہ حقوق محفوظ ہیں تو خاصان خدا کے نام۔ لا شک، ملت کے اخلاقی وجود پر حملہ آور مجاہدین کے سرخیل مولانا گھمن بھی ہیں۔ جناب گھمن کے ساتھ اس شاندار ماضی کی ہم رکابی مگر کافی نہیں کہ ان پر لگے الزام کو جرم یقین کرنے تک کا فاصلہ مختصر کر دیا جائے۔ معاملہ یہ نہیں کہ وہ مجرم ہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ مجھے ابھی مجرم کہنا ہے یا نہیں؟ دستیاب شواہد کی گواہی ممکن ہے حضرت گھمن کی بابت میرے خیال کوایک طرف یکسو کر دے۔ مگر یہ دل کا معاملہ ابھی کسی پر کھول دینے کو، تقاضا اس کے سوا چاہیے۔ اس قضیہ پر کلام سے پہلے مجھے اپنی ذمہ داری سے باخبر رہنا ہوگا۔ میں مدعی نہیں کہ جرم کے اثبات کی خاطر براہین تلاشنے کی سعی کروں۔ کسی مدعی نے مجھے وکیل نہیں بنایا کہ اس کے تعاون کو مچل بیٹھوں۔ مدعی بے بس اتنا ہو کہ اسے مجھے وکالت سونپنے کا یارا نہ رہا ہو، تو بھی اگلے ہر اقدام سے قبل میں یہ جانچوں گا کہ میرے کسی عمل کا مدعی مظلوم کو کیا فیض پہنچ کر رہنا ہے؟ کیا کہیں جوش ِحق گوئی میں، میں نے وہاں بھی تو کمند نہیں ڈال دی، جہاں کے تصور سے بھی مدعی شرما جائے ہے؟ میری حیثیت حَکم یا قاضی کی بھی نہیں کہ جانبین کا موقف سنوں اور عدل کی داستاں رقم کر ڈالوں۔
میں کس مقام پر ہوں؟ مقام اپنا یہی ہے کہ کسی ثابت شدہ جرم سے کسی عصبیت کے زیر اثر انکار نہ کر گزروں۔جناب گھمن کی داستاں مبرہن کر دی گئی مگر بہرحال ان کا مجرم ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔ اس سے قبل میں کسی جرم کو، جرم سمجھ کر اس کی شناعت سے خدا کے بندوں کو خبردار کر سکتا ہوں، مگر اس جرم کی نسبت کسی فرد کی طرف کرگزرنے سے گریزاں رہوں گا۔ میں زین العابدین کی لخت جگر پر بھی ”بہتان باندھنے“ کا بہتان نہیں لگا سکتا۔ بات یہ ہے کہ مجھے میرا دین مجبور کرتا ہے کہ محض مدعی کا سچا ہونا مدعی علیہ کو مجرم یقین کرنے کو کافی نہیں۔ کسی کو مجرم کہہ گزرنے کے لیے محض دعوی کی سچائی یا مدعی کا سچا ہونا کافی نہیں۔ مجرم کہنے کو ناگزیر ہے کہ ”سچا فیصلہ“ بھی ہو لینے دیاجائے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک سچا مدعی کہہ رہا ہو کہ ”فلاں مجرم ہے“، اس پر جھوٹا فیصلہ ہو چلے کہ ”فلاں معصوم ہے“،تو مجھ پر دین کی رو سے لازم ہے کہ مجاز اتھارٹی کے جھوٹے فیصلہ پر قول کی بنیاد رکھوں۔ ذاتی معلومات دلِ ناداں سے جو کہلائیں کہلاتی پھریں، زباں مگر پابند ہے تو کسی مجاز اتھارٹی کے فیصلے کی۔ رسالت مآبﷺ اسی باریکی کو سمجھانے کے لیے، اصحاب سے مخاطب ہوئے کہ دیکھیے تم مجھ تک نزاعات لے آتے ہو، میں گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ میں تمہارا نبی اس میں امکان بھر کوتاہی نہیں برتتا، مگر گواہی جھوٹی ہونے کے احتمال سے میرے فیصلے کے خلاف ِحقیقت ہوجانے کا امکان بھی ہے۔ اگر کسی نزاع میں جھوٹ موٹ کی گواہی کی روشنی میں کسی کے حق میں کسی ٹکڑے کا فیصلہ میں محمدﷺ کر بھی لوں تو اس کے باوجود ایسا شخص سمجھ لے کے اس کے حصہ میں یہ جہنم کی آگ کا ٹکڑا آیا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ جھوٹی گواہی پر مبنی رسول کا عدالتی فیصلہ اس کے لیے حرام کو حلال کر دے گا۔ ایسے موقع پر سچے مدعی کو بھی فیصلے کے سامنے سرنگوں ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اسے جھوٹے فیصلہ پر ملال کے بجائے، اس نازک گھڑی میں دین کی اطاعت کی توفیقِ خاص پر شادماں ہونا چاہیے۔ حقیقی فیصلہ ہونےتک خدائی عدالت کا یقین بھرا انتظار ہی اس کا سرمایا رہے۔
حضرت گھمن کی داستاں کا جز بننے والے عناصر حد درجہ حساس ہیں۔ دین اپنے ماننے والوں سے اس بابت سخت ہدایات کی پابندی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان امور میں کلام کرنے کو محض سچائی تک رسائی پا جانےکی بےتابی سے زیادہ معاملے کی حساسیت اور اپنی ذمہ داری کا ادراک لازم ہے۔ پھر جبکہ اس سارے جتن سے مبینہ مظلومہ کی کوئی مدد بھی متوقع نہیں تو کہیے اس کارثواب کو کس کے نامے میں درج کروانا مطلوب ہے؟ دیکھا یہ بھی گیا کہ جناب گھمن کو مجرم ماننے سے بھی کئی طبیعتیں سیراب نہ ہو پائیں۔ اس مرحلے میں بھی افراط و غلو کی فراوانی زوروں پہ دیکھی گئی۔ بچا وہی، جس پر بس خدا نے رحم فرما لیا۔ مجھےاب اس نئی داستاں کو طول نہیں دینا۔ کہنا یہ ہے کہ قوم کے جری ثبوتوں کو مبارک ہو کہ ”قیام بالقسط“ کا سینہ حسب روایت پھر چھلنی کر آئے۔ جرم و مجرم کی شناعت کا بیان، تزکیہ پا چکے نفوس کو کرنا ناگزیر ہو ہی جائے تو عجب ان کا حال ہوتا ہے۔ اخلاص و عبدیت کی ہر ادا اس لمحے ان پر نثار ہوئی جا رہی ہوتی ہے۔ عدل کے تقاضے نبھانے کو ضمنا مجرم کی نشاندہی کرنی ہی پڑ جائے تو انہیں یہ سب دل پر پتھر رکھ کر کرنا ہوتا ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹا بھی جا رہا ہوتا ہے ساتھ میں آنسوؤں کی لڑی جاری رہتی ہے۔ ایسی پاکباز روحیں مجرم کی تذلیل سے نہیں خوش ہو پاتیں۔ کیا؟ کب تک؟ کیوں چھپانا ہے؟ اور کب، کیا، کس قدر اور کیسے ظاہر کرنا ہے؟ ستر و اظہار کے مواقع میں فرق کا ادراک سچ یہ ہے کہ گہری سنجیدگی اور اعلی تربیت مانگتا ہے۔ کوئی چاہے تو رسالت مآبﷺ کا مجرمین کے باب میں برتا گیا رویہ دقتِ نظر سے مطالعہ کر لے۔ بلاشبہ اس میں سیکھنے والوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں۔
تبصرہ لکھیے