ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے. ابھی چند دن پہلے جناب عمران خان نے جیو کے پروگرام شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ میں پرجوش اور دو ٹوک انداز میں فرمایا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں لازمی شرکت بھی کریں گے اور بھرپور حصہ بھی ڈالیں گے کہ مودی کے موجودہ جارحانہ عزائم کے تناظر میں ایسا لازمی ہے مگر کل اچانک کیا ہوگیا کہ انھوں نے تمام ممبران سمیت پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا؟
ایک ہی دن پہلے وزیراعظم کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں خود شرکت نہ کرکے بھی انھوں نے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی تھی، اس دن ان کی کوئی غیرمعمولی مصروفیت بھی نہیں تھی، پرفضا مقام نتھیاگلی میں سابق کرکٹرز اور ایک فنکار دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں انھوں نے دن گزارا۔ ایسے حالات میں کہ ہندوستان نے نہ صرف کشمیر میں ظلم اور بربریت کو عروج پر پہنچا دیا ہے بلکہ ڈائریکٹ پاکستان پر باقاعدہ حملہ کرنے کے دعوی کر رہا ہے ہے اور مزید حملوں کی دھمکی دے رہا ہے۔ ہندوستان کے ان جارحانہ عزائم اور عملی اقدامات کی وجہ سے پوری قوم تشویش میں مبتلا ہے اور اپنی سیاسی و عسکری قیادت سے بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ وہ اس نازک اور حساس وقت میں مکمل یکجہتی، سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ نہ صرف ملکی سالمیت اور تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے بلکہ مظلوم کشمیریوں کی ہر قسم کی مدد اور تعاون کے لیے بھی عملی راستے ڈھونڈیں گے، مگر خان صاحب کے بائیکاٹ نے امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے.
عمران خان نے بائیکاٹ کےلیے جو منطق پیش کی ہے وہ بھی ناقابل فہم بلکہ مضحکہ خیز ہے یعنی مشترکہ سیشن میں شرکت وزیراعظم پر اعتماد کے مترادف ہے۔ اب کوئی خان صاحب سے سوال کرنے کی جسارت کر لے کہ جناب قبلہ محترم! پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن وزیراعظم کا کوئی منعقد کردہ اجلاس یا اے پی سی نہیں جہاں آپ نے شاہ محمود اور شیریں مزاری کو بھیج دیا تھا بلکہ یہ ایک دستوری، جمہوری اور منتخب ادارے کا باقاعدہ بلایا گیا انتہائی اہم اجلاس ہے، وزیراعظم کی اے پی سی میں شرکت اور قومی ادارے کا بائیکاٹ کیا معنی رکھتا ہے؟
اگر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت وزیراعظم پر اعتماد ہے تو یہ فریضہ تو کب سے آنجناب فرمارہے ہیں؟
اگر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت غیر اہم ہے تو پھر باقاعدہ استعفے پیش کیوں نہیں کیے جاتے تاکہ مفت میں مراعات لینے کا الزام نہ لگے۔
اس کے بغیر تمام سنجیدہ حلقےخان صاحب کے مذکورہ فیصلوں کو حیرت اور تعجب کی نظر سے دیکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر میں کشمیر پر واضح مؤقف اور ہندوستان کے کردار پر واضح تنقید سے ایک بین الاقوامی ماحول بنا ہے، پوری قوم میں یکجہتی کی ایک لہر موجود ہے، اسے مزید مؤثر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں واضح نظر آ رہا ہے کہ خان صاحب کا موجودہ کردار کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔ کسی اہم ایشو پر اجلاس یا فورم کا انعقاد اور اس میں تمام متعلقہ لوگوں کی شرکت سے مذکورہ ایشو اور مسئلے کی اہمیت، نزاکت اور حساسیت کا تاثر دلانا مقصود ہوتا ہے اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اس حوالے سے پوری قوم اور قیادت متفق اور یکسو ہے۔ ہر وقت پارٹی مفادات اور سیاسی مقاصد کو مدنظر رکھنا اور اسی تناظر میں فیصلے کرنا کہاں دانشمندی ہے۔
یاد کیا جا رہا ہے کہ مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو سے اس وقت کے تمام سیاسی قیادت کا شدید ترین اختلاف تھا اور ان کے خلاف مشترکہ طور پر بھرپور تحریک بھی چلائی جا رہی تھی مگر جس وقت وہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کرنے شملہ جارہے تھے تو تمام سیاسی قیادت نے نہ صرف انھیں مثبت پیغام اور اعتماد دیا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر سب سے بڑے حریف اور ناقد جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے باقاعدہ ائیر پورٹ آ کر انھیں رخصت بھی کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اکثریت نے خان صاحب کے مذکورہ فیصلوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے، اجلاس میں اس سے اختلاف کیا ہے، جس پر خان صاحب نے ٹی وی پر اپنا دفاع کرنے والوں کو تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ میں جانے کا مشورہ دے دیا. عین اپنے مزاج کے مطابق انھوں نے کسی مشورے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنے اہم ذمہ داران کو باقاعدہ جھڑکتے رہے۔ اس طرح کے آمرانہ اور انا پرستانہ فیصلوں کی وجہ سے تحریک انصاف سیاسی تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔ کیا یہ تاثر اس کےلیے کوئی نیک شگون ہے کہ مسلۂ کشمیر اور قومی سلامتی پر فوج، عوام اور تمام سیاسی قیادت ایک طرف اور عمران خان دوسری طرف۔
خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اب ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں، ان کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں، ایک قومی مسئلے پر کوئی بھی غلط قدم اٹھانا ان کے ارمانوں کا خون کرانے کا مترادف ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ وہ ضد اور انا کے حصار سے نکل کر پوری سنجیدگی، دانشمندی، احساس اور احتیاط کے ساتھ معاملات دیکھیں۔ جو لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوا کرتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے