ہوم << مومن کی آزمائش ہوتی ہے : محمد عمیر اقبال

مومن کی آزمائش ہوتی ہے : محمد عمیر اقبال

محمد عمیر اقبالدنيا ميں کون ايسا انسان ہے جسے تکليف نہ آتی ہو..؟ جسے رنج وغم لاحق نہ ہوتا ہو..؟ جو پریشانیوں اور مصائب میں گھرا ہوا نا ہو..؟
يہ تو دنيا کی ريت ہے، يہاں رہنا ہے تو کبھی خوشی تو کبھی غم، کبھی خوش حالی تو کبھی بدحالی، کبھی سکھ تو کبھی دکھ ۔۔۔ يہ ساری کیفیتیں انسان کے ساتھ لازم ملزوم ہیں-
گو سراپا عيش وعشرت ہے سراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی
البتہ مومن اور کافر کے کردار ميں يہاں فرق يہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافر رنج وغم کی تاب نہ لاکر ہوش وحواس کھو بيٹھتا ہے، مايوسی کا شکار ہو جاتا ہے، اور کبھی غم کی تاب نہ لاکر خود کشی کرليتا ہے، جبکہ مومن بڑے بڑے مصائب پربھی چيں بجبيں نہيں ہوتا، اور صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالی کی حکمت ومصلحت سے ہوا، اور اللہ تعالی اپنے بندہ کے لئے اچھا ہی کرتا ہے، اس طرح اُسے غم کی چوٹ ميں بھی عجيب لذت محسوس ہوتی ہے۔
صحيح مسلم ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے مومن کی اسی کيفيت کو بيان کيا ہے : "عجبا لأمرالمؤمن إن أمرہ کلہ لہ خير إن أصابتہ سراء شکر فکان خيرا لہ وإن أصابتہ ضراء صبرفکان خيرا لہ"
(مومن کا معاملہ کيا ہی خوب ہے وہ ہرحال ميں خيرہی سميٹتا ہے اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے اور يہ خوشحالی اس کے لئے خير کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر وہ دکھ، بيماری، اور تنگ دستی سے دو چار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے چنانچہ يہ آزمائش اس کے حق ميں خيرثابت ہوتی ہے)
دنيا مسائل ہی کا نام ہے، اس سرائے فانی ميں کون ايسا انسان ہے جو ہميشہ خوش وخرم رہتا ہو، کون سا ايسا گھر ہے جہاں ماتم نہ ہو، مصيبتيں، پريشانياں، آفتيں، آلام و مصائب زندگی کا اٹوٹ حصہ ہيں۔
اگر يہ مصيبتيں کسی فاسق وفاجر پر آتی ہيں تو يہ اس کے کالے کرتوت کا نتيجہ ہوتی ہيں، اور اگر کسی بندہء مومن پر آتی ہيں تو يہ اس کے ايمان کی علامت ہوتی ہے، اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے۔
لہذا ہميں غور کرنا چاہيے کہ اگر ہم پر کسی طرح کی مصيبت آئی ہوئی ہے، ملازمت سے محروم ہيں، يا سالوں سے بيمار ہيں، يا جسم وجان سے مجبور ہيں جبکہ ہمارا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہے تو ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزماکراپنا مقرب بنانا چاہتا ہے۔
ذرا سنيے کچھ بشارتيں زبان نبوت سے آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا : "من يرد اللہ بہ خيرا يصب منہ" (رواہ البخاری)
(اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتار کرديتا ہے)
گويا کہ بندہ مومن کا مصيبت سے دوچار ہونا اس کے لئے نيک فال ہے، حب الہی کی علامت ہے ، سزا يا عذاب نہيں-
آپ صلي الله عليه وسلم نے يہ بھی فرمايا: "إذا أراد اللہ بعبدہ الخير عجل لہ العقوبة فی الدنيا وإذا أراد اللہ بعبدہ الشرأمسک عنہ بذنبہ حتی يوافی بہ يوم القيامة"
(اللہ تعالی جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے گناہوں کی سزا دنيا ميں ہی دے ديتا ہے، اور جب اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تواس کے گناہ کی سزا روک ليتا ہے، اُس کا پورا پورا بدلہ قيامت کے دن دے گا)
اور ايک دوسری روايت ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: "إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وأن اللہ اذا أحب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضاء ومن سخط فلہ السخط" (صحیح الجامع)
(يعنی جتنی بڑی مصيبت ہوگی اُتنا ہی بڑا ثواب ملے گا، اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے مصيبتوں ميں ڈال ديتا ہے۔ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرديا تواس کے لئے رضامندی ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضگی ہے)
ايک مرتبہ حضرت سعد رضي الله عنه نے نبی صلي الله عليه وسلم سے پوچھا: يا رسول اللہ وہ کون لوگ ہيں جن کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے؟ آپ نے جواباً فرمايا: الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل.
*أنبياء کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے-
*پھر مقام ومرتبہ کے اعتبار سے جو جتنا زيادہ نيک اور اچھا ہوگا اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی-
*اگر آدمی کا دين کمزور ہے تواسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی، آدمی کو اس کے دين کے اعتبار سے آزمايا جائے گا، اگر اس کا دين ٹھوس ہے تو اس کی آزمائش سخت ہوگی، اور اگر اس کے دين ميں نرمی ہے تو اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی۔
پھر آپ نے فرمايا: "فما يبرح البلاء علی العبد حتی يترکہ يمشی علی الأرض ما عليہ خطيئة."
(مصيبت آدمی کے ساتھ لگی رہتی ہے يہاں تک کہ وہ زمين پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر گناہ نہيں ہوتا يعنی صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کرديتا ہے)
درج بالا احادیث شریفہ سے یقینا بے شمار کے دلوں کی تسلی ہوئی ہوگی۔ یہاں یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ مصیبت یا آزمائش مانگنے کی چیز نہیں ہے۔ اس دور میں پل پل اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے ایمان کو آزمانے کا سوچنا بھی اپنے آپ میں ایک بڑی حماقت ہے۔ تاہم جو لوگ کسی غم میں مبتلا ہیں ان کے لیے ارشادات بمنزلہء عظیم بشارتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانیت کو ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھے اور مبتلا بہ لوگوں کو جلد از جلد اس سے نجات دے۔ آمین!

Comments

Click here to post a comment