اس میں شک نہیں کہ عصر حاضر میں سوشل نیٹ ورکنگ نے بین الاقوامی تعلق و روابط کے حصول میں نہ صرف آسانی فراہم کی ہے بلکہ اس نے اخلاقی اور سماجی معیارات کو بلند کرنے کے حوالے سے عام آدمی کی ذہن سازی میں بھی اپنا موثر کردار ادا کیا ہے۔
لیکن اس بات میں بھی کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی میں کم از کم اتنا نہیں ہوا جتنا کہ منفی طرز عمل دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ یار لوگوں نے تحریر/تصویر/آڈیو/ویڈیو کی شئرنگ فارورڈنگ کو ہی اپنا اہم مشغلہ بنا رکھا ہے ۔۔۔ کسی جگہ کہا جا رہا ہے فلاں فلاں پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئر کر کے ثواب کمائیے، اتنے لوگوں کو بھیجیں تو صبح تک خوشخبری ملے گی یا کہیں گلی محلے کے چھٹ بھئیے متشاعروں کی تُک بندی پر غالب، اقبال، فراز کا تخلص چسپاں کیا جا رہا ہے۔ کہیں اقوال زریں کی تشہیر کے نام پر اول جلول مقولے علمی و دینی شخصیات کا نام جوڑ کر پھیلائے جا رہے تو کہیں سیاسی، سماجی، مذہبی اختلافات کو ردعمل اور معلومات کی عام فراہمی کے بہانے اجاگر و نمایاں کر کے گویا جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دیا جا رہا ہے۔
جو لوگ سوشل نیٹ ورکنگ پر فعال ہیں اور روزمرہ کی فرصت اور/یا مصروفیات کے اوقات کار کا بیشتر حصہ اسی سوشل میڈیا کی نذر کرتے ہوں، بہت ممکن ہے کہ وہ درحقیقت اس کی اصل تعریف اور غرض و غایت سے ناواقف ہوں۔
وکیپیڈیا پر سوشل نیٹ ورکنگ کی تعریف کچھ یوں درج ہے کہ: سماجی روابط یعنی سوشل نیٹ ورک ایک ایسا سماجی ڈھانچہ ہے جو مختلف افراد یا تنظیموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ افراد/تنظیم آپس میں ایک یا زائد اقسام کے تعلقات سے منسلک ہوتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورک دراصل دنیا بھر کے مختلف المزاج افراد کے اجتماعی ظہرانہ/عصرانہ/عشائیہ کی وہ میز ہے جہاں مختلف النوع موضوعات پر اظہار خیال یا مکالمہ ادب و تہذیب کے دائرے میں انجام پاتا ہے۔
سلیکون ویلی کے جیریما اویانگ (1) نے اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ مزید لکھی ہے کہ سماجی روابط کی ویب سائٹس اپنے اراکین کو کسی موضوع پر منحصر ہونے کے بجائے باہمی تعلقات اور دلچسپیوں پر زیادہ ارتکاز کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کو جانتے اور میل ملاپ کی تمنا رکھتے ہوں وہ دراصل مشترکہ مفادات کی تسبیح سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس تسبیح میں باہمی دلچسپیوں کے موتی ہی دراصل ایک دوسرے سے رابطہ برقرار رکھنے اور معلومات کا اشتراک کرنے والے عظیم اوزار ہیں۔
یہ درست ہے کہ آج ہم ایک ایسے دور اور معاشرہ میں جی رہے ہیں جہاں مکالمہ بہت ضروری ہو گیا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں رہا جہاں "گفتگو" سے افہام و تفہیم کی راہیں نہ کھلتی ہوں۔ نہ صرف افہام و تفہیم بلکہ مکالمہ اور تبادلہ خیال سے آپسی یگانگت، تحمل اور رواداری کے رویے پروان چڑھتے ہیں۔
مگر ملین ڈالر کا سوال یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہم اور آپ اپنے احباب کے درمیان کن موضوعات پر گفتگو کریں گے یا کرتے ہیں؟
ذرا تصور کیجیے کہ "ادب میں فحاشی کا تصور" کے موضوع پر چند ادب دوست احباب کے درمیان سنجیدہ مکالمہ ہو رہا ہو اور باحثین منٹو کے افسانوں سے لے کر عصمت کے لحاف ، چرکین کی شاعری، مادام بواری اور لیڈی چیٹرلیز لوور کے ہئیت و اسلوب پر بامعنی گفتگو فرما رہے ہوں اور ایسے میں کوئی محترم اٹھ کر کہہ دیں کہ ارے صاحب، ان سب پر تو سنی لیون کا نغمہ "بےبی ڈال" اور "پنک لپس" بھاری پڑ جاتا ہے۔
بات تو کسی حد تک سچ ہے مگر قابل غور نکات یہی ہیں کہ متذکرہ قول کس موقع پر ادا کیا گیا ہے اور اس سے نہ صرف گفتگو میں خلل پیدا ہوا بلکہ شرکا کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کہنے والے کی سوچ و ذہنیت کا کیا تاثر قائم ہوتا ہے؟
بالکلیہ یہی تاثر حالیہ عرصہ میں فیس بک پر ارسال کردہ ان متنازعہ مراسلات سے پیدا ہوا جو ہند و پاک کے موجودہ جنگی تناظر میں چند پاکستانی دوست و احباب نے اپنی اپنی ٹائم لائن پر ارسال کیے ہیں۔ شاید یہی سبب ہو کہ معروف پاکستانی ادیب و ڈرامہ نگار جناب اقبال حسن یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:
"پاکستان اور ہندوستان کے بیچ موجودہ کشیدگی نے کتنے ہی ادیبوں سے بردباری، انکسار، صبر، تجزیہ کی قوت اور ادبی مٹھاس چھین لی۔ دوستیاں بھی برباد ہوئیں اور بعض ایسے چہرے بھی سامنے آئے جن کی قتل و غارت گری کی خواہش دیکھ کر حیرت ہوئی۔ کہیں کہیں وہ زبان بھی استعمال کی گئی جو ایک ادیب تو کجا، طبقہ اسفل میں بھی تکلف کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ جنگ تو پتہ نہیں ہوتی ہے یا نہیں لیکن ایک بات البتہ صاف ہو گئی کہ ادیب کا چہرہ چڑھا لینے اور دانشوری کے موٹے موٹے لفظ لکھنے سے کوئی ادیب نہیں ہو جاتا۔ ادیب ہونا بھی ایک کیفیت ہے جو ہر کسی پر طاری نہیں ہو سکتی۔"
دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا یہ سچ نہیں؟ فیس بک پر پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر نے، جن کی ادب دوستی اور افسانہ نگاری کے ہم جیسے بیشمار ہندوستانی اردو داں قائل و معترف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی فہرستِ دوستاں میں بصد فخر شامل ہیں، جب مقابل ملک و قوم کے خلاف بقول اقبال حسن اسفل ترین زبان، لہجہ و رویہ تسلسل سے استعمال کیا تو اپنے ممدوح کا یہ تلخ و نازیبا رخ دیکھنا کیا ہمارے لیے تکلیف دہ نہ رہا ہوگا؟
بجا ہے کہ آپ ادیب ہونے کے ساتھ اپنے ملک کی فوج کا ایک حصہ رہے ہیں اور اس حوالے سے اپنے ملک کی سلامتی و موقف کا بلحاظ موقع محل اظہار خیال بھی آپ کا حق ہے۔ مگر یہ کیا ضروری ہے کہ آپ بحیثیت ادیب ایسی زبان، رویے، اشارے کنائیے اور مبالغے کو زیراستعمال لائیں جن سے فریق مخالف کو ذہنی تکلیف سے دوچار ہونا پڑے؟ وطن پرستی کا آخر یہ کیسا جدید انداز ہمارے معاشرے میں رواج پا گیا ہے کہ آپ وطن پرست اسی وقت ہیں جب دشمن ملک، اس کی حکومت اور اسکے عوام کی ہرزہ سرائی میں رطب اللسان ہوں؟
ادیب تو کرنل شفیق الرحمان، کرنل محمد خان اور لیفٹیننٹ جنرل ضمیر جعفری بھی رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ انہیں پڑھنے والے ہندوستانی قارئین نے ان کے پیشہ سے قطع نظر ان کی تخلیقات کو، ان کے انداز تحریر کو کیوں سندِ قبولیت بخشی؟ اپنی تحریروں، تقریروں یا عوامی پلیٹ فارم پر مخالف ملک کے لیے کیا کبھی انہوں نے وہ معیوب زبان یا متعصب لہجہ استعمال کیا جو آپ کر رہے ہیں؟
جنگ ہو یا نہ ہو مگر سوشل میڈیا پر جب ہم نے اپنے پڑوسی ملک کے اچھے اچھے قلمکاروں کو اس جذباتی لہر میں بہتے اور اپنے موقف کو قومیت و مذہبیت کا لبادہ اڑھاتے دیکھا تو نجانے کیوں یہ احساس تقویت پایا کہ دونوں طرف کے میڈیا کی اشتعال انگیزی کا سب سے آسان شکار یہی پڑوسی قوم ہوتی ہے بااستثنائے چند!
ہماری اس سوچ کے جواب میں ہمارے ایک دیرینہ پاکستانی دوست نے وہی بات کہی جو عام طور پر کہی جاتی رہی ہے کہ آپ کا میڈیا، لکھاری اور حکومت اپنی ہر ناکامی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر رعب جھاڑتی رہے تب بھی کیا ہم چپ رہیں؟
جناب عالی، کس نے کہہ دیا کہ آپ بس چپ رہیں؟ اور کون مانتا ہے کہ آپ نے ایسی باتوں پر کبھی خاموشی اختیار کی ہو؟ کیا سرکاری سطح پر ردعمل کے تلخ ترین بیانات منظر عام پر نہیں آتے؟ اگر ہمارے ہاں ارناب گوسوامی، سدھیر چودھری، روہت سردانا، دیپک چورسیا ۔۔۔۔ جیسے منہ پھٹ متعصب ہیں تو کیا آپ کے ہاں زید حامد، عامر لیاقت، مبشر لقمان، حسن نثار جیسی معروف و متنازعہ اینکر شخصیات نہیں ہیں؟
آپ بےشک اپنے انفرادی مجموعی تاثرات کو قلمبند فرمائیں اور انہیں کسی ویب سائٹ، بلاگ یا پرنٹ یا آن لائن اخبار میں شائع کروائیں۔ یہ درست طرز عمل ہوگا۔ مضمون پڑھنے والے ہندوستانی قارئین کو برا بھی نہیں لگے گا اور جس مقابل قلمکار میں جواب دینے کی جرات و صلاحیت ہوگی وہ دلائل کی بنیاد پر آپ کے موقف کو قبول یا رد کرے گا۔ اور یہی صحت مند معاشروں کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آپ چٹکلوں، تیکھے ترش جملوں یا فوٹوشاپ کے سہارے تبدیل شدہ نازیبا تصاویر کے ذریعے اپنے بین الاقوامی سماجی تعلقات کو کشیدہ و بدتر بنائیں؟
اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سرحد کے دونوں پار کے عوام کی اکثریت کو اپنی قیادت، حکومت اور سربراہ اعلیٰ سے بجا طور شکایت بلکہ شکایتیں ہیں۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ جب آپ کے سربراہ اعلیٰ موجودہ کشیدگی کے پس منظر میں اپنے موقف کی تشریح و توضیح کریں تو وہ نہایت مقبول، پسندیدہ اور قابل تعریف ٹھہرے اور مخالف ملک کا وزیراعظم کچھ سنجیدہ وضاحت فرمائے تو آپ کہنے لگ جائیں کہ: "مودی کی گیدڑ بھبھکی اور کھسیانی بلی ٹائپ کی اسپیچ سے جنگ کا خطرہ تقریباً ٹل گیا ہے!"
میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو اور کسے کہتے ہیں حضور؟ مودبانہ عرض ہے کہ یہاں تیری میری شخصیات کی بات نہیں۔ ہم تو منصب کے احترام کی گذارش کرتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ کے میدان میں عزت دو اور عزت لو کا سنہرا اصول کیا آج کی عالمی ضرورت نہیں؟
ہمارے عہد کے نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی صاحب کہتے ہیں کراچی والے آگے ہو کر کراچی کی برائی کرتے ہیں لیکن کوئی اور ان کی ہاں میں ہاں ملا دے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔
اس زبان زد عام مقبول فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ بندہ اپنے وطن، اپنے شہر یا اپنے علاقے کی برائی دوسروں کی زبانی نہیں سن سکتا ۔۔۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ "حق بات" کہنے کے بہانے فریق مخالف کے ملک کو، اس کے رہنماؤں کو، اس کی قیادت اور اس کے عوام کو جی بھر کر جلی کٹی سنائیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ سوشل میڈیا پر پڑوسی ملک کی جو معتدل و سنجیدہ مزاج شخصیات آپ کی فرینڈز لسٹ میں شامل ہیں وہ یہ سب پڑھ کر بھی ہنوز آپ کی فہرستِ دوستاں میں اچھے دل، اچھی نیت اور اچھے جذبات کے ساتھ قائم و دائم رہیں؟
وزیر علی صبا تو فرما گئے ہیں:
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
یہ سوال بھی بجا ہے کہ اردو قلمکار تو سرحد کے اُس پار بھی ہیں اور ان میں سے کچھ وہی کر رہے ہیں جس کی شکایت میں راقم نے یہ دفتر کھولا ہے، آپ انہیں بھی چپ کیوں نہیں کراتے؟ جواباً عرض ہے کہ دونوں طرف کے "اردو قلمکاروں" کے درمیان قدرِ مشترک زبان ضرور ہے، مگر آپ بھول رہے ہیں کہ ایک اور مابہ الامتیاز عنصر "مذہب" کی بنیاد پر آپ کے "مملکتِ خداداد" کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ ہم تو ٹھہرے اجنبی! سیکولر اور غیراسلامی معاشرے کے باشندے! مگر "وطن پرستی" کی آڑ میں سرزد ہوئے اور ہو رہے آپ کے اعمال، افعال اور خیالات و نظریات کیا حقیقتاً اس مذہب کے موئید ہیں جس کی بنیاد پر آپ کو برصغیر سے اپنا وطن کاٹ کر علیحدہ کر لینے کا فخر حاصل ہے؟ حالانکہ اسی مذہب کے سب سے بڑے مبلغ و معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:
قیامت کے دن میزان میں حسن خلق سے زیادہ وزنی کوئی عمل نہیں ہوگا۔
بھلا یہ کیسا حسن خلق ہے کہ آپ کو غیرملکیوں سے سماجی تعلقات نبھانے کا معمولی سا ہنر تک نہیں آتا؟ یا پھر اگر آپ اپنے مذہب کی اصل تعلیمات پر عمل کرنے سے اتنے ہی قاصر ہیں جتنے کہ ہم تو پھر بھائی، اپنے وطن اور اس کی صلاحیتوں پر اس قدر ناز کیوں؟
ایسا بالکل نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے موجودہ جنگی ماحول پر تمام پاکستانیوں کے ایسے ہی ناروا طرز عمل کا بول بالا ہو۔ کچھ اچھے قلمکار وہ بھی ہیں جن کے سبب ہماری امید اس دشت خار میں بصورت گلاب پنپ رہی ہے۔ جواں سال شاعر فاتح الدین بشیر جب ایک معنی خیز تصویر پر ساحر کا مشہور شعر :
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
چسپاں کر کے اپنے کسی ساتھی کو وضاحتاً لکھتے ہیں: "یہ پیغام مودی کے لیے نہیں تھا بلکہ میرے دوستوں کے لیے تھا۔ انفرادی اندازِ فکر تبدیل ہوگا تبھی اجتماعی سوچ بدلے گی۔ اور ایسا نہیں کہ چند لوگوں کی سوچ باقیوں پر بالکل بھی اثر نہ کرے اور اگر بالکل بھی کسی پر اثر نہ کرے تب بھی کم از کم مجھے یہ اطمینان ضرور ہو گا کہ میں اپنے بچوں کو یہ بتا سکوں گا کہ میں جلتی پر تیل چھڑکنے والوں میں شامل نہیں تھا بلکہ بجھانے کی کوشش میں حصے دار تھا خواہ ایک بالٹی پانی ہی سہی۔ "
تو یقین کیجیے کہ اندھیرے میں ایسی ننھی روشنی سے ہماری آنکھیں نم ہو اٹھتی ہیں۔
کچھ دن قبل مدیر "دلیل" عامر خاکوانی صاحب نے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے مشہور بالی ووڈ اداکار و دانشور امیتابھ بچن کے ایک خط کا اپنے منفرد اور قابل تحسین انداز میں جواب پیش کیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ کسی موضوع سے متعلق خود امیتابھ بچن کے ذاتی خیالات کیسے ہیں، عمومی طور پر اداکار موصوف کی بیشتر پرانی نئی فلموں میں ان کے مکالمے اور پیشکشی کا لب و لہجہ قابل تقلید و توصیف رہا ہے۔ نجانے کیوں اس مضمون کے آخر میں ان کی ایک حالیہ فلم "پنک [Pink]" کا ایک منظر اور اس کا مکالمہ بےساختہ یاد آ گیا ہے۔
منظر یہ ہے کہ عدالت کے کٹہرے میں ملزم نوجوان ٹراؤزر کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے لاپرواہی اور بےفکری والے انداز میں کھڑا ہے اور وکیل امیتابھ بچن اس پر جرح کی شروعات میں ہی فرماتے ہیں:
"آپ معاشرے کے ایک معروف اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ نے اعلیٰ معیاری اسکولوں میں تعلیم و تربیت پائی حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم بھی آکسفورڈ میں حاصل کی ہے مگر حیرت ہے کہ آپ کو عدالت میں تمیز اور وقار سے کھڑا ہونا نہیں آیا!!"
جناب عالی! ہم بھی پڑوسی ملک کے تمام قابل اور محترم قلمکاروں سے کچھ ایسا ہی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ آپ اس مذہب اور اس زبانِ شیریں کے نام لیوا قلمکار ہیں جس نے دنیا کو ایک مکمل اور باوقار تہذیب عطا کی ہے مگر حیرت ہے آپ باہمی تعلق و روابط کے اصول و ضوابط کو کیونکر قابل عمل نہیں مانتے؟!
حوالہ جات:
1) Jeremiah Owyang
https://goo.gl/vb42w6
- مکرم نیاز
مضمون نگار آنلائن اردو نیوز پورٹل "تعمیر نیوز" کے بانی و اعزازی مدیر ہیں اور پیشہ کے لحاظ سے تلنگانہ حکومت کے ایک محکمہ میں سول انجینئر کے گزیٹیڈ عہدہ پر فائز ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر taemeer کی آئی ڈی سے موجود ہیں۔
تبصرہ لکھیے