استاد، معلم اور (teacher) معاشرے میں اس عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے، جو معاشروں کی بنیادوں، قوموں کی جڑوں، ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں اور نظام عالم کی بقا میں بنیادی اور مرکزی کردار اد ا کرتا ہے اور انہیں گھن لگنے سے بچاتا ہے۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات کا نام نہیں ہوتا بلکہ پورا ایک جہان ہوتا ہے، جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ متعلق (connect) ہوتے ہیں۔ استاد کی محنت، لگن، شوق، امانت، دیانت، راست بازی، نیک نیتی کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا دائرہ کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر انسان استاد کے بغیر کامل انسان بن سکتا ہے، نہ دنیا کی رنگینیوں میں بےمثال اور بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو ہرگز ہرگز مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ استاد ہی دنیا میں وہ عظیم ہستی ہے جس کی بقاء تا قیامت رہتی ہے۔
استاد کی عظمت ایک ایسا موضوع ہے جس کا کماحقہ ادارک کرنا شاید چند صفحات اور الفاظ میں ناممکن ہو۔ ہمارا موضوع عہدِ حاضر کے استاد کا جائزہ لینا ہے۔ ظاہر بات ہے کسی بھی چیز یا شخص کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس چیز یا شخص کےماضی، حال، مقابلہ کرنے والے افراد یا اشیاء اور اس کے ثمرات ومضمرات اور فوائد پر غور وخوض کرنا بہت ضرور ی ہوتا ہے۔ اس لیے ہم عہدِ حاضر کے استاد کا مکمل جائزہ لینے کے لیے درج ذیل سات قسم کی مباحث کا سہارا لیں گے ۔
(1) استاد کی اہمیت قرآن و حدیث کی زبانی
(2) استادکے اوصاف اور ذمہ داریاں
(3) ماضی کا استاد
(4) عہدحاضر کا استاد، ذمہ داریاں اور کوتاہیاں
(5) عہد حاضر کا استاد کیسا ہو؟
(1) استاد کی اہمیت بزبان ِقرآن و حدیث
استاد اور معلم کی ہستی کس قدر عظیم خصوصیات کی حامل ہے، اس کااندزاہ درج ذیل ارشادات باری و محبوب ِربانی ﷺ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ارشاد ِباری ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا کہ ان کے درمیان انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں پاک صاف کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ (اٰل عمران:164)
اللہ کایہ فرمان کائنات کے عظیم معلم حضور ﷺ کی شان ذی جلال کو واضح کرنے لیے کافی ہے۔ دنیا کے عظیم معلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ نے خود اپنے بارے میں ارشافرمایا کہ: [pullquote]"انما بعثت معلماً"(بخاری ومسلم)[/pullquote]
یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آپ ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری تعلیم و تعلم کی بھی تھی۔ چنانچہ مذکورہ ارشاد اسی ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے۔ آپ ﷺ نے دیگر ذمہ داریوں کی طرح تعلیم وتعلم والی اس اہم ذمہ داری کو بھی بااحسن انداز میں نبھایا۔ کسی بھی معلم کی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے اس کے شاگردوں کو جانچا جاتا ہے۔ اگرآپﷺ کی بحثیت معلم ہونے کی حسن کارکردگی کو جانچنا ہو تو آپ کے عظیم شاگردوں کو دیکھ لیا جائے۔ کس طرح آپ ﷺ نے جہالت و ظلمت میں ڈوبے ہوئے صحرا نشینوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے آئیڈیل اور ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ آج بھی دنیا کے ہر استاد کے لیے آپ ﷺ بطور معلم ایک بہترین آئیڈیل اور مثالی شخصیت ہیں۔
قرآن و حدیث کے علاوہ صحابہ کرام اور اسلاف امت کے اقوال سے بھی استاد کی اہمیت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔
• حضرت علی کا فرمان ہے: جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں،چاہے وہ مجھے بیچے،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔
• حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے: عالم کا مقام اپنی قوم میں ایسا ہی ہے جیسے نبی ﷺ کا امت میں، اور آپﷺ کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا ”اگر یہ اس وقت تک صبر کرتے جب تک آپ خود باہر نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا.“ (الحجرات:5)۔
• حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کبھی بھی اپنے استاد امام حماد کے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہ سوتے ۔ اور آپ اپنے استاد کے بیٹے کے ادب کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
• امام ربیع ؒ کا قول ہے کہ مجھے کبھی اپنے استاد امام شافعی ؒ کے سامنے پانی پینے کی جرات نہ ہوئی۔
(آداب المعلمین)
• حضرت علامہ اقبالؒ کے بارے میں یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ جب انہیں ”سر“ کا خطاب دیا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک ان کے استاد سید میرحسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب نہیں دیا جاتا وہ اپنے لیے یہ خطاب قبول نہیں کرسکتے۔
یہ علم اور استاد کی اہمیت ہی تو تھی کہ جس کی وجہ سے حضرت علی، ابن عباس رضی اللہ عنہما، امام ابوحنیفہ ؒ، امام ربیعؒ اور علامہ اقبالؒ جیسی عظیم ہستیوں نے اپنے اعمال و اقوال سے اسوہ حسنہ پیش کیا۔
(2) استاد کے اوصاف اورذمہ داریاں
منصب ِاستاد کی عظمت اوراہمیت جس قدر بلند ہے، اسی قدر اس منصب پر فائز ہونے والے شخص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک استاد اور معلم کے لیےحضور ﷺ کی ذات گرامی آئیڈیل ہے اسی طرح ہر شاگرد کے لیے اپنا استاد آئیڈیل ہوتا ہے۔ اور جو شخصیت جس قدر مثالی یا آئیڈیل ہوگی اس پر ذمہ داریاں بھی اتنی ہی سخت عائد ہوں گی۔ ذیل میں ایک استاد کے اوصافِ حمیدہ اور ذمہ داریاں بیان کی جا رہی ہیں۔
استاد میں حرص کا مادہ ہونا چاہیے، یعنی اپنے طلبہ کی بھلائی کے لیے خیرخواہی کے جذبے سے سرشار ہو۔ جوچیز طلبہ کے لیے مفید ہو اس کو فوراً بتادے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ایک صفت ”حریص“ بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے ”تمہاری طرف ایک رسول آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے“(توبۃ:128)۔
استاد کو شفیق، مہربان اور نرم ہوناچاہیے کیوں کہ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ نرم ہیں اور اپنے تمام معاملے میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں“ (بخاری،رقم:6927)۔ اسی طرح حضرت انس جوآپﷺ کے خادم خاص تھے، ان کا ارشاد ہے کہ ”میں نے آپﷺ کی نوسال خدمت کی، کبھی آپ نے کسی کام کے متعلق جس کو میں نے کیا، نہ یہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہ کیا“(مسلم،2310)
استاد کو عاجزی اور تواضع والے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے کیوں کہ عاجزی ہی وہ عظیم صفت ہے جو انسان کو کمال عطا کرتی ہے۔ ورنہ اس کے بالمقابل تکبر انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ چناچہ اسی تکبر کی وجہ سے شیطان مردود ہوا۔
استاد کے اندر وسعت ِقلبی اور کشادہ دلی کا مادہ ہونا چاہیے کیوں کہ استاد جس قدر وسیع ظرف کاحامل ہوگا، طلبہ کا میلان اسی قدر زیادہ ہوگا۔ یوں طلبہ اپنے تمام معاملات اپنے استاد سے شئیر (share) کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ آپﷺ کی عادت مبارکہ بھی یہی تھی۔ چنانچہ آپﷺ سے صحابہ کرام ہر قسم کے سوالات بلاتامل کرسکتے تھے۔
استاد کو طلبہ کے سوالات کا نرمی سے جواب دینا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑ ے تو کسی بھی مسئلہ کے تمام تر پہلوؤں کو بیان کر دینا چاہیے، تاکہ طلبہ کو تشفی ہوجائے۔
اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو محض اندازے سےبیان نہ کرے، بلکہ یا تو معذرت کرلے یا آئندہ بتانے کا وعدہ کرلے۔ امام مالک ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب ان سے کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا جس کا ان کو علم نہ ہوتا تو وہ لاادری (مجھے معلوم نہیں ہے) فرمادیتے۔
استاد کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو اس کی شخصیت یا اس کے کردار کو داغدار کرے کیوں کہ طلبہ استاد کے ہر بات اور عمل سے اثر پکڑتے ہیں۔
استاد کے قول وعمل میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔
استاد کو تعصب، بد دیانتی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، سستی، کام چوری، لسانیت، خیانت، غفلت اور رشوت جیسی بری عادات سے مبرا ہوناچاہیے۔
استاد کو خلوص نیت، ایمانداری، نیک نیتی سے اپنا فرض منصبی نبھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کے دباؤ، لالچ، ڈر خوف سے متاثر ہوئے بغیر استغنا کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
(3) ماضی کا استاد
اکیسویں صدی کے اس دور کو سائنسی اور تعلیمی دور کہا جاتا ہے کیوں کہ تعلیم نے جس سبک رفتاری سے ترقی بیسویں اور اکیسویں صدی میں کی، اس کی نظیر ماضی میں ملنا مشکل ہے۔ اسی ترقی کی بدولت آج انسانوں کو ایسی ایسی سہولیات ملیں، جن کاتصور ماضی میں نہیں تھا۔ لیکن مقام ِتعجب یہ ہے کہ آسانیوں اور راحتوں کے باوجود آج انسانیت جس ذہنی اضطراب اور بےچینی میں مبتلا ہے، شاید اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو؟ اگر ہم ماضی اور حال کا موازنہ کرکے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے ماضی کو اتنی مشکلات کے باوجود سکون اور اطمینان بخشے رکھا اور حال کو وافر مقدار میں سہولیات کےباوجود بے چینی اور اضطراب سے دوچار کیا؟ تو ہمیں وہ چیز تعلیم وتعلم اور معلم کی نظر آئی گی۔
ماضی میں اگرچہ تعلیم وتعلم کے وسائل اتنے زیادہ نہ تھے، لیکن مخلص معلمین اور اساتذہ موجود تھے۔ جو اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ علم کی نشرواشاعت کرتےتھے۔ یہی وہ عظیم معلم تھے جن کی ہر بات پر لوگ بلاچوں چراں سر تسلیم خم کر لیتے تھے۔ یہی وہ اساتذہ تھے جن کی قدر و منزلت حاکم سے بھی زیادہ تھی۔ ماضی کے اس عظیم استاد کی تاثیر صرف علم کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ان اوصاف کی بدولت تھی جن کا ذکر ماقبل میں گزرا۔ ماضی کے عظیم اساتذہ کی عظمت کے لیےاتنا کافی ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد بھی اسلامی علوم وحدیث محفوظ ہیں۔
(4) عہدِ حاضر کا استاد
اگر ہم مذکورہ تین بحثوں کو سامنے رکھ کر عہدِ حاضر کے استاد کا موازنہ کریں تو ہم دم بخود رہ جائیں۔ تعلیمی وسائل کی بہتات کے باوجود آج ہمارے ہاں ایسی کھیپ تیار نہیں ہو رہی جس سے ملک و ملت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیم کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل کی کثرت سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوجاتا۔اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اقدار کو چار چاند لگ جاتے۔ راحتیں، امن وسکون، امانت، دیانت، محبت، الفت اور بھائی چارگی کی پر سکون فضا اور ماحول بن جاتا اور پوری قوم نہ صرف مہذب بن جاتی، بلکہ اقوام ِعالم کی قیادت و سیادت کے لیے فیورٹ بن جاتی۔ لیکن افسوس! یہ سہانے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بجائے محض خواب اور ماضی کی قصے کہانیاں بنتے جا رہے ہیں۔
اگر ہم اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بننے والے اسباب تلاش کریں تو بنیادی سبب قوم کے معماروں کی عدم توجہ اور غفلت کا نظر آئے گا۔ اس لیے ذیل میں عہدِحاضر کے معماروں کی کوتاہیاں اور ذمہ داریاں بیان کی جاتی ہیں، تاکہ قوم کی عمارت مضبوط بن سکے۔
کوتاہیاں اور ذمہ داریاں:
جہاں تک عہدِحاضر کی استاد کی کوتاہیوں کا تعلق ہے تو ا س سلسلے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آج کا استاد مقام ِاستاد اور عظمت ِاستاد کو فراموش کر کے مادیت اور دنیا کی چکا چوند کا اسیر ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے استاد کی دوڑ دھوپ پیسے کے حصول کے لیے بنتی جا رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ معاشرے میں آج بھی استاد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ عزت ذات ِاستاد کی نہیں بلکہ منصب استاد کی کی جاتی ہے۔ جہاں تک استاد کے احترام کا تعلق ہے وہ رفتہ رفتہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی طرف سے اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے عہدِ حاضر کے استاد کو ذکر کردہ اوصافِ حمیدہ اور ذمہ داریوں پر فوری طور پر عمل کرنا ہوگا، تاکہ قوم کے حقیقی سرمائے (نوجوانوں) کوضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور ملک کو خوشحال بنایا جا سکے۔
(5) عہدِ حاضر کا استاد کیسا ہو؟
پاکستان میں سرکاری اور پرائیوٹ طرز کے تعلیمی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ پرائیوٹ اداروں میں تعلیمی عمل کسی حد تک حوصلہ افزا ہے لیکن سرکاری اداروں میں تعلیم کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ملک کے زیادہ تر بچے انہی اداروں سے تحصیل علم کرتے ہیں. سرکاری اداروں کی حوصلہ شکن کارکردگی کی وجہ سے آئے روز مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ان اداروں کی خراب کارکردگی کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ سرکاری تعلیمی اداروں میں منصب ِاستاد پر فائز افراد کی تعلیمی اور اخلاقی تربیت کافقدان اور اوصاف ِحمیدہ سے عاری ہونا ہے۔
سرکاری اداروں میں منصبِ استاد پرفائز اساتذہ کی تعلیمی صلاحیت کا اندازہ 2014ء کی رپورٹ سے لگایاجاسکتا ہے جس کے مطابق سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 6 لاکھ 78 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سےصرف 2.7 فیصد یعنی 18 ہزار 820 اساتذہ کی تعلیمی قابلیت مڈل ہے۔
سرکاری اداروں میں تعلیمی معیار بہتر بنانے اور عہدِ حاضر کے استاد کو مثالی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے درج ذیل طریقوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔
• قابلیت اور میرٹ کے پیمانے پر پورا اترنے والے شخص کو منصب ِاستاد پر فائز کرنا چاہیے۔
• اساتذہ کو اوصاف ِحمیدہ اور ذمہ داریوں سےمکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے خصوصی ٹریننگ سنٹرز ( جن میں تدریس کے ٹیکنیکل طریقوں کے علاوہ اخلاقیات اور سیرت طیبہ ﷺ کی تعلیم بھی دی جائے) کو فعال کرنا چاہیے۔
• کائنات کے عظیم استادآپﷺ ہیں، اس لیے عہدِ حاضر کے استاد کو اپنا آئیڈیل آقاﷺ کو بنانا چاہیے اور آپ کے بتائے ہوئے طریقوں اور افعال کے مطابق نسل ِنو کی تربیت کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے اس کے لیے آپﷺ کی سیرت کو پڑھنا پڑے گا۔ اس لیے اس ذمہ داری کو حکومتی سطح پر ادا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنے چاہییں۔
• حکومت کوآئے روز ،گلی محلوں میں کھلنے والے اسکولوں اور اکیڈمیوں کے لیے ایک خاص (criteria) مقرر کرنا چاہیے تاکہ تعلیم کے نام پر ہر شخص قوم کے سرمائے (نوجوانوں) کو لوٹنے کی ہمت نہ کرسکے۔
• موجودہ پرائیوٹ اور سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے حکومتی سطح پر ایک فورس تشکیل دینی چاہیے، جو ماہواری یا سالانہ کی رپورٹ سے اساتذہ کی کارکردگیوں کو جانچے اور غفلت کے مرتکب اساتذہ کی پڑتال کر کے قانونی طور پر کارروائی کرے۔
اگران بنیادی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر عہدِ حاضر کے استاد کا انتخاب کیا جائے تو بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے