مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر جناب مجاہد حسین صاحب کا تحریری سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بہت کھل کر اس میں حصہ لینے کی عام دعوت دی ہے تو ہم بھی اپنی طالب علمانہ رائے کے ساتھ حاضر ہیں۔ انہوں نے پہلی قسط سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ لکھا ہے وہیں سے بات کا آغاز ہوجائے۔ ایک بات جو شروع سے ذہن میں رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ تحریر کا مقصد کسی کو لاجواب کرنا یا تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے۔ ہمارے لیے ہمارا ہر دوست قابل احترام ہے۔ ہر شخص میں اللہ تعالی نے خصوصی صلاحیتیں رکھی ہیں اور ہر شخص کو اللہ تعالی نے علم سے نوازا ہے۔ ایسے دوستوں کی قدردانی درحقیقت علم اور ٹیلنٹ کی قدر دانی ہے جو ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے۔ مگر چونکہ بات کا آغاز ہی مجاہد صاحب نے مثال دے کر کیا ہے تو اس لیے اگر تحریر میں کسی واقعے پر گفتگو ہو جائے تو اسے مخصوص فرد کے بجائے ہمارے عمومی رویے پر منطبق کیا جائے۔
مجاہد صاحب کا کہنا ہے: ”مسلمانوں کو دور جدید میں جو فکری چیلنجز درپیش ہیں وہ اتنے بڑے ہیں کہ ان کا جواب کوئی ایک فرد نہیں دے سکتا۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ان پرکھل کر گفتگو کی جائے، ہر قسم کے سوال اٹھائے جائیں اور کوئی بھی پہلو تقدیس کے غلاف میں چھپا کے نہ رکھا جائے۔“ اسی ذیل میں آگے کہتے ہیں ”ان معاملات پر کسی گروہ کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی جا سکتی۔“ آگے اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں : ”دو تین ماہ پہلے ہمارے نوجوان دوست . . . . . . نے داڑھی کی شرعی حیثیت پر ایک پوسٹ کی تھی جس پر شاید پانچ سو کے قریب کمنٹس آئے تھے۔ زیادہ تر کمنٹس مذہبی طبقے کے افراد نے کیے جن کا دعوی تھا کہ ان مسائل پر عام آدمی کو بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔“
اس حدتک تو بات ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کا جواب مسلمانوں کو مل کر دینا ہوگا۔ جواب دینے پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے اور علم کسی کی جاگیر بھی نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک علمی موضوع پر گفتگو کے لیے اہلیت کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے یا نہیں؟ داڑھی جیسے خالص شرعی اور علمی مسئلے پر اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے تو کم از کم اس کا مبلغ علم اتنا تو ہو کہ اس سے متعلق مباحث کے بارے میں وہ پوری طرح سے معلومات رکھتا ہو۔ سنت کی تعریف، اقسام اور اس مسئلے کا روایتی و درایتی پہلو سب پر نظر ہو۔ روایات کے محض اردو ترجمہ پر انحصار کے بجائے ان کے اصل مفہوم تک رسائی ہو۔ کسی ایک مصنف اور کسی ایک روایت کو دیکھ کر یا کسی مسئلے پر کچھ دیر کے لیے سوچ کر اگر ہم سوال اٹھانے لگیں اور صدیوں پر محیط تاریخ رکھنے والی فقہ کو چیلنج کرنے لگیں تو یہ اپنی کم علمی کے اظہار کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہی لطیفے وجود میں آتے ہیں اور بندہ خود مذاق بن جاتا ہے۔ بہت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ پانچ سو کمنٹ کرنے والوں میں سے شاید ایک یہ بندہ حقیر بھی تھا مگر یقین جانیے کہ بندہ نے اجارہ داری جتلانے کے لیے کچھ نہیں لکھا۔ نہ بندہ خود کو علم کے اجارہ کا اہل سمجھتا ہے۔ اجارہ تو کجا علم کا محض دعوی کرنے کے لیے بھی علم کا بہت بڑا ذخیرہ پاس ہونا شرط ہے جو میرے پاس قطعی نہیں ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ اس موضوع کو چھیڑنے کے لیے جناب کے دوست کو جس قدر تحقیق کی ضرورت تھی، وہ بھی نظر نہیں آئی۔ اسی لیے تو ہر شخص یہی کہتا نظر آیا کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دینی موضوعات پر اگر کوئی شخص علمی انداز میں لکھتا ہے تو اس کا علماء نے ہمیشہ احترام کیا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے نام سے کون ناواقف ہے؟ ان کی کتب اور محاضرات سے آج بھی علماء اور دینی مدارس کے طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔ کسی نے یہ کہہ کر انہیں مسترد نہیں کیا کہ وہ روایتی عالم نہیں کہلاتے بلکہ کراچی میں ایک معروف دینی جامعہ میں ان کی آمد پر جب انہوں نے پینٹ شرٹ میں ملبوس ہو کر عظیم الشان مسجد کے منبر پر بیٹھ کر طلبہ سے خطاب کیا تو ایک مشہور کالم نگار عالم دین اور مفتی نے جو میرے استاد بھی ہیں، ان کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس شخص نے آج پینٹ شرٹ میں ہمارے منبر پر بیٹھ کر ہمیں سمجھا دیا کہ علم کس چیز کا نام ہے۔“
بات اجارہ داری کی نہیں اہلیت کی ہے۔ کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر کے سامنے اگر کوئی نوجوان میڈیکل ٹیکنیشنر اپنی سی رائے زنی کرنے لگے یا کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر کے سامنے کوئی میٹرک کا لڑکا شیخیاں مارنے لگے تو اس کے جواب میں ڈاکٹرز موصوف بڑی شفقت سے اتنا ہی کہیں گے کہ بیٹا تم ابھی بچے ہو، جب بڑے ہوگے اور اس پر خوب تحقیق کر لوگے تو تب اپنی رائے دینا۔ ہاں اگر کوئی نوجوان اپنے تجربے اور تعلیم کے برعکس دلائل سے اپنی رائے میں اتنا وزن پیدا کر لیتا ہے کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی حیران کر دیتا ہے تو تب اس کی عظمت کو سپیشلسٹ اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس مسئلے پر ہم گفتگو کرتے ہیں اور گفتگو بھی عمومی نہیں، سوال اٹھاتے ہیں اور فیلڈ میں تعلیم و تحربے کا ہمارا کوئی پس منظر بھی نہ ہو تو کم از کم ایسے بندے کو محنت بہت کرنی پڑتی ہے، ایسے ہی کوئی بھی آئے اور کچھ بھی کہے تو اسے سوال نہیں کہا جاسکتا۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے