ہوم << صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت - رانا احسن رسول

صوفی، سیکولرازم اور نئی اصطلاحات کی ضرورت - رانا احسن رسول

%d8%a7%d8%ad%d8%b3%d9%86-%d8%b1%d8%b3%d9%88%d9%84 گاہے نپی تلی ”پھلجھڑی“ ہم بھی چھوڑ دیتے ہیں جس سے یار لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ احسن اب دائرہِ اسلام سے تین کلومیٹر اور دور ہو گیا ہے. دراصل گرد اس قدر اڑائی جا چکی ہے کہ اردو لغات تک میں ”سیکولر“ کا ترجمہ لادین کر دیا گیا ہے. ارے لغت والے بھیّا، پھر اتھیسٹ کا ترجمہ کیا کریں گے؟ جواب ملا ملحد. ملحد اور لادین میں کیا فرق ہوا؟ جواب ندارد
افلاطون ٹائپ بزرگ جو اس کثیف فرق کو بھی لطیف سمجھتے ہیں، یہ فرما کر گزر جاتے ہیں کہ بیٹا اول بندہ سیکولر ہوتا ہے اور آخرش ملحد ہو کر ہی دم لیتا ہے جس کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور اللہ اللہ.. ورنہ پھر لنڈے کے لبرلز اور لعنت شعنت. اگر ہم سیکولرازم کا سادہ سے سادہ مفہوم بھی پیش کریں تو ”مذہب کے سیاسی استعمال سے بچاؤ“ کے علاوہ کیا کر پائیں گے؟
صحیفۂ حق میں لکھا ہے جو زندہ رہا دلیل سے زندہ رہا اور جو ہلاک ہوا دلیل سے ہلاک ہوا. ایمان بالغیب کا مطلب یہ تھا کے بغیر دیکھے ایمان لانا. وقت کی گرد نے سب دلیلوں کو طاق پر سجا کر بغیر سوچے سمجھے ایمان لانا بنا دیا ہے. اب کسی ایمانی عقیدہ پر عقلی دلیل مانگنا بھی کفر ٹھہر چکا ہے. کوئی جو بھی سمجھے یہ اس کا حق ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کے ہر سچے صوُفی کے اندر ایک مطمئن فلسفی چھپا ہوتا ہے جس کے عقائد سیکولر ہوتے ہیں.
ہم سیکولر، لبرل اور روشن خیالی کے بیچ سیکولر تر اور سیکولر ترین طرز کی اصطلاحات کے خواہشمند ہیں جس کو انگلش میں سافٹ سیکولرازم، ہارڈ سیکولرازم کا نام دیا گیا ہے تاکہ سیکولر کا مطلب لادین کوئی بھی نہ کر سکے. یہ ذمہ داری بہرحال فقیروں سے زیادہ مقامی پیشہ ور فلاسفروں کی ہے. نیز سیکولرازم کے حامی دانشوروں کو مذہبی اخلاقیات (سچ، ترکِ نشہ، زکوٰۃ، عبادات میں روحانی سکون) کے مثبت استعمال کے فوائد کو بھی اسی طرح دلیل سے تسلیم کرنا ہے جس طرح مذہب کے سیاسی استعمال کے نقصانات کو تسلیم کیا گیا ہے.
ہم جس سیکولرازم کے فلسفے کو پسند کریں گے، اس میں ریاست کے قوانین میں مذہب اور فرقہ جات کی علمداری کو روکے جانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست لوگوں کے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو مطلوبہ مذہبی سہولیات ( عبادت گاہیں، مدارس) بھی فراہم کرے.
دراصل مسئلہ کہاں ہے؟
سیکولرازم کا امیج محض فحاشی، میراتھن، شراب نوشی اور مادر پدر آزادی بن چکا ہے، اس لیے اس آخری حل کی طرف ایک سنجیدہ مسلمان بھی اپنا سفر پھونک پھونک کر کر رہا ہے. ہمیں نئی اصطلاحات کی ضرورت ہے اور صوفیائے کرام جو کہ بیک وقت عالم، فلسفی اور نباضِ وقت ہوتے ہیں، ان کے انسٹیٹوشنز کو استعمال کرنا ہوگا کہ ہر دور میں سب سے زیادہ نظریاتی لچک ان کے ہاں موجود رہی ہے. بابا بلھے شاہ کی سیکولر لبرل شاعری بھی آپ نے سنی ہوگی، خان پور سے تعلق رکھنے والے صوفی خواجہ محمد یار فریدی کا ایک شعر سنتے جائیے.
لا مذہبیم و مذہبِ ما ترکِ مذہب است
ما مذہبے با دستِ مذہب داں فروختیم

Comments

Click here to post a comment