ہوم << کامیابی .. مگر کیسے ؟؟؟ راحیل اسلم

کامیابی .. مگر کیسے ؟؟؟ راحیل اسلم

رات کے پچھلے پہر جاگتے ہوئے کسی ایسی اساءنمنٹ پہ کام کرتے ہوئے,
جو اگلے
سے 6 گھنٹے میں آپ کو جمع کرانے کروانی ہو 5
یہ وقت کسی بھی طالبعلم یا کسی بھی شخص کے لئے
اپنی زندگی پہ غور کرنے کے لئے سب سے بہترین وقت ہوتا ہے.
ایسے موقع پہ کبھی آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ یہ نہ کر پائے تو پورے سمسٹر کی محنت
رائیگاں چلی جائے گئی
اور ایک لمحے کے لیے آپ کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ آپ یقینا ناکام ہونے والے ہیں .
میرے ساتھ ایسا تقریبا ہر سمسٹر میں ہوتا
رہا اور یہ خوف وقت
کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا.
اپنی
GPA
کو بہتر کرنے سے لے کر اپنی
CV
کو مینٹین کرنے تک یا پھر اپنے پروفیشنل کیریئر میں پہلا قدم اٹھانے سے لے کر ایک انٹرپرینیور بننے تک ہر
ہر چیز مجھے اکثر اپنے ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی رہی
. ناکامی کا خوف ہمیشہ میرے اوپر چھایا رہا
ناکامی کے اس خوف کا سامنا تقریبا ہم سب کو اپنی زندگی کے اکثر مقامات پہ کرنا پڑتا ہے.
کبھی امتحان میں فیل ہونے کا خوف کبھی خود سے وابستہ اپنی
توقعات پوری نہ ہونے کا خوف، کبھی والدین اور آپکی ذات سے جڑے لوگوں کی توقعات پوری نہ کر پانے کا خوف.
غرض یہ کہ ناکامی کا خوف
ہماری زندگیوں کا سب سے بڑا خوف
ثابت ہوتا ہے
. اور میرے نزدیک اسی خوف کے باعث ہم خود سے وابستہ اپنی بہت سے توققمت کو پورا نہیں کر پاتے
ہارنے کا ناکام ہونے کا ڈر ہمیں ہر وہ شئے
بھلانے پہ مجبور کر دیتا ہے
جسے ہم نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہوتا ہے.
اور ہم یہ سوچنے پہ
مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید ہم کوئی بے منزل مسافت طے کر رہے ہیں.
یہاں سمجھنے کی یہ بات ضروری ہے کہ اگر چیزیں ویسے نہیں ہو رہیں جیسے آپ نے سوچا تھا تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ آپ کی مسافت بےمنزل ہے.
ہمارے حالات ہمارے اختيار سے باهر ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ انسان کو اس
کا اندازہ ہوتا ہے
کہ ناکامی قطعی کوئی بری چیز
نہیں ہے
کسی دانشور کے بقول ناکامی آپ کو کامیابی کے متعلق بہتر زاویہء نظر دیتی ہے
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب تک آپ گرنا نہیں سیکھیں گئے تب تک چلنا نہیں سیکھیں گئے، اور اگر
آپ سیکھیں گے نہیں تو کامیاب کس طرح ہوں گے.
ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ بل گیٹس کو ہارورڈ سے نکال دیا گیا تھا . جس کے بعد اس نے پال ایلن کے ساتھ مل کر بزنس شروع کیا جو بری طرح ناکام ہوا
بل گیٹس کو مائیکروسافٹ کا بل گیٹس بننے میں بہت سال لگے.
کم و بیش کچھ یہی صورت حال کے ایف سی کے ہرلنڈ سندرس کو بھی درپیش رہی جو
تقریبن ٦٠ سال تک ایک ناکام شخص کہلاتا رہا.
ایسی بہت سی مثالیں ہمیں یقینا ہمارے گردو پیش میں بھی مل جائیں گی۔
ہم سب کو یہ چیز تسلیم کرنا ہو گی کے ہم انسان ہیں اور بہت سی چیزیں ہمارے دائر اختیار سے
باہر ہیں. ہمیں خود کو صرف اس وجہ سے ناکام تصّور کرنے کی روش کو ختم کرنا ہو گا کہ ہمارا ہمعصر کتنا کامیاب ہے
ہمارے ہمعصر کی کامیابی کسی صورت ہماری ناکامی یا کامیابی کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہو سکتی
ہر لمحہ ہوتی ہوئے ترقی کے دور میں یہ سوچنا کے شائد ہم پیچھے رہ گے ہیں اک فطری عمل ہے لیکن اس دوران خود کا موازنہ دوسروں سے کرنا.
اور پھر اس پہ کڑھتے رہنا بیوقوفی ہو گا
اگر آپکو آگے بڑھنا ہے تو اپنی ناکامیوں سے سیکھنا ہو گا اور بہتر سے بہتر کی جستجو کرنا ہو گی
اب یہاں سب سے قابل فکر بات یہ ہے کے ناکامی سے کیسے نمٹا جاۓ
ہمیں سب سے پہلے یہ سوچ بدلنا ہو گی کے اگر ہم کسی مہم میں ناکام ہوئے ہیں تو ایسا صرف ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے
ایک تحقیق کے مطابق تقریبا ٩٠ فیصد لوگ اپنی پہلی کوشش میں ناکام ہو جاتے ہیں.صرف اس وجہ سے یہ سوچ لینا کے فلاں بندہ کتنا کامیاب ہے
یقیناّ اس کے لئے سب کچھ ٹھیک ہی رہا ہو گا ایک غیر مناسب بات ہے.
دوسری چیز ہمیں یہ کرنا ہو گی کے جب ہم اپنی ناکامی کا ذکر
کرتے ہیں تو ہمیں ان باتوں پی غور کرنا چاہے جو ہم نہیں کر پاے . یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا
ہے.وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے کے ہم نے کہاں غلطی کی
ناکامی سے بچنے کے بہت سے راستے ہوتے ہیں جب ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں گے کہ کامیابی تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے
ہر ناکامی کی صورت میں ہم خود کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ان چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے جو ہم نے اپنی دانست میں بہترین کیا
ہمیں اپنی کوششوں کی قدر کرنا ہو گی اور خود کی صلاحیتوں کا معترف ہونا ہو گا
کسی بھی کام کے لئے محنت شرط ہے.ہمیں ہر کام پوری محنت اور خلوص سے کرنے کے ساتھ اپنی محنت کو سراہنا بھی ہو گا
اور اس بات کا ادراک کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ غلطیاں یا ناکامی اک فطری چیز ہے اس سے گھبرانے کی بجاے اسے اپنی طاقت بنانا سیکھنا ہو گا
کیوں کہ بھر حال ہم انسان ہیں اور انسان کبھی غلطیوں سے مبرّا نہیں ہوتا.