قائد اعظم بھی شاعر تھے؟مختلف رسالوں میں متن کے ساتھ ساتھ جا بجا چوکھٹوں میں دلچسپ واقعات، لطیفے یا اشعار دیے جاتے ہیں۔ پہلے تو صحافت کی زبان میں انھیں Fillerکہتے تھے اور یہ صرف وہیں استعمال کے جاتے تھے جہاں ایک مضمون مکمل ہونے کے بعد جگہ بچ جائے اور دوسرا مضمون شروع نہ کیا جاسکے۔ آج کل باکس آئٹم (Box Item) چوکھٹے کی شکل میں رنگا رنگی اور تنوع پیدا کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں گویا قارئین کے لیے ایک ٹکٹ میں دو مزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک اخبار میں دیکھا کہ صفحے کے ایک کونے پر علامہ اقبال کے چند اشعاردرج ہیں لیکن نیچے علامہ اقبال کے نام کے بجائے لکھا تھا۔ ’’قائد اعظم‘‘ ایڈیٹر سے تعلقات اچھے تھے۔ رگ ظرافت پھڑکی تو انھیں لکھ بھیجا ’’قائد اعظم شاعر بھی تھے؟
کم از کم مجھ پر اس کا انکشاف پہلی بار ہوا ہے۔ مزید انکشافات کی توقع رکھی جائے؟‘‘ جواب میں خط نہیں بھونچال آیا، طوفان آیا ، طوفان بادوباراں، تندوتیز۔ ہم نے آج تک اسے سنبھال رکھا ہے۔ پہلے تو انھوں نے اس بات پر گرفت کی کہ ہم نے غلطی کی نشان دہی کی تو کیوں؟ پھر لکھا: ’’ایسا تو عموماً وہ لوگ کیا کرتے ہیں جو صحافت کے نشیب و فراز اور اس کے ’’اندرونے‘‘ سے واقف نہیں ہوتے لیکن آپ ان اسرار و رموز سے بے بہرہ نہیں۔ پھر پیشے کے حوالے سے آپ ہماری ہی برادری کے ایک معزز رکن شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی طرف سے تو ہمیں ایک ہلکی سی مسکراہٹ کافی ہوتی کہ اس میدان میں ایسے لطیفے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ پھر غلطی کا جواز پیش فرمایا: ’’ایسی غلطی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتی ہے۔ کئی منزلہ عمارت جو تعمیر کے دوسرے سال گر جائے، تربیلا ڈیم لیک کرنے لگے،
پاکستان کا دستور بار بار معطل ہوجائے اور خود دولخت۔ غلطی صرف کسی چیف انجینئر یا لیڈر کی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام شامل ہوتے ہیں۔ انفرادی غلطی کے مشاہدے آپ نے فوجی زندگی میں بار بار کیے ہوں گے۔ جب کوئی وردی پوش کبھی بیلٹ یا ٹوپی کے بغیر باہر نکل آتا ہے۔ کبھی ٹائٹل شولڈر، ربن یا سٹار الٹے لگ جاتے ہیں (بے تکلفی معاف) کبھی پتلون کے بٹن کھلے رہ جاتے ہیں۔ کانفرنس یا انٹرویو پر جاتے وقت ضروری کاغذ کہیں رہ جاتے ہیں۔ اصلی یا مشقی جنگ میں اسلحہ کہیں تو بارود کہیں پہنچ جاتا ہے۔
غلطی کہاں نہیں ہوتی، غلطی کون نہیں کرتا۔ جب انسان خطا و نسیان کا مرکب ہے تو وہ ان سے مبرا رہنے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ سب سے بڑی اور پہلی غلطی تو ابلیس سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار میں ہوئی۔ پھر آدم سے جو نافرمانی سرزد ہوئی وہ بھی اسی کی ترغیب کا نتیجہ تھی۔ نوبت ہبوط آدم تک پہنچی اور اولاد آدم آج تک غلطیاں کرتی اور ان کی سزا بھگتتی چلی آ رہی ہے… بندہ ہونے کی حیثیت سے انسان ہر روز نہ جانے کتنی ہی غلطیاں، بے انصافیاں، گناہ ہائے صغیرہ و کبیرہ، فرشتوں سے نامہ اعمال میں قلم بند کراتے چلا جا رہا ہے۔ جس کا حساب کتاب یوم الحساب ہونا ہے!‘‘ اور آخر میں انھوں نے غلطی کو غلطی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ لکھا ’’حیرت ہے کہ آپ پر قائد اعظم کے شاعر ہونے کا انکشاف پہلی مرتبہ کیوں ہوا؟
ہمیں … اور کم از کم مجھے تو ان کے شاعر ہونے میں مثقال بھر شبہ بھی نہیں وہ پاکستان ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے بہت بڑے شاعر بلکہ ملک الشعرا تھے… قائداعظم کی کہی ہوئی ہر بات ایک شعر ہے جس میں صداقت ہی صداقت ہے، حسن ہی حسن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قائدنے اپنی شاعری کے لیے میٹر، قوافی اور ردیف کا استعمال نہیں کیا۔ آزاد شاعری کی ہے اور اسی سے آزادی حاصل کی ہے اور یہ بھی انہی کی شاعری کا فیض ہے کہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں، ہیں۔ ‘‘ صاحبو! اس خط کے بعد سے ہم قائد اعظم کو شاعر بھی مانتے چلے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ مدیر موصوف کا پورا خط نقل نہیں کیا گیا ؎کہیں کہیں سے
سنائے ہیں ہم نے افسانے (قیامت کے نامے) (انتخاب نذیر انبالوی)
تبصرہ لکھیے