عمران خان واقعی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس سے سب کچھ ممکن ہے۔ پاکستانی سیاست میں سرپرائز دینے کی صلاحیت کا سب سے زیادہ مظاہرہ خان نے ہی کیا ہے۔ رائیونڈ جلسہ کا اعلان ہوا تو ہر کوئی حیران تھا کہ ستمبر کے آخری دنوں میں جب لاہور میں شدید حبس اور گرمی چل رہی ہے، شہر سے میلوں دور رائیونڈ میں جلسہ کرنے کی کیا تک ہے۔ اوپر سے اڈہ پلاٹ کی جگہ چن لی، جسے بھرنا بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جلسے سے دو تین دن پہلے تک صحافیوں میں یہ سوال ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا تھا کہ جلسہ کا کیا بنے گا؟ حیران کن طور پر اسی نوے فیصد یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے شدید غلطی کی ہے۔ موسم غلط ہے، جگہ غلط چنی، اتنے بڑے کھلے میدان کو بھرنا ممکن نہیں۔ دو لاکھ سے کم لوگ اسے بھر نہیں سکتے، جبکہ حالات بتا رہے ہیں کہ اس سے چار پانچ گنا کم لوگ بھی اکٹھے نہیں ہو پائیں گے۔ عمران خان کے آخری دو تین جلسے زیادہ اچھے نہیں رہے تھے۔ کراچی کا جلسہ تو پریشان کن حد تک خراب رہا۔ جلسہ گاہ میں خالی کرسیاں نظر آئیں۔ لاہور میں ریلی بھی درمیانی رہی۔ یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے کارکن تھک چکے ہیں، رہنما چندہ دینے کو تیار نہیں، ارکان اسمبلی تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے موڈ میں نہیں۔ دو دن پہلے ن لیگ کےلیے نرم گوشہ رکھنے والے ایک سینئر دوست نے اڈہ پلاٹ کا وزٹ کرنے کے بعد اپنا تجزیہ شیئر کیا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دو غلطیاں کی ہیں، اڈہ پلاٹ کا انتخاب غلط ہوا، اوپر سے انتظامیہ کی شرائط مان لیں، جنہوں نے ہوشیاری سے قافلوں کے رکنے کےلیے کئی میل دور جگہوں کا انتخاب کیا ہے۔ خواتین کے لیے بھی چار پانچ کلومیٹر دور جگہ رکھی گئی ہے، وہ کیسے اتنا زیادہ چل کر اڈہ پلاٹ پہنچیں گی۔ ان کا تجزیہ تھا کہ جلسہ فلاپ ہوجائے گا۔ ادھر گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان وغیرہ سے دوست صحافی خبر دے رہے تھے کہ مقامی سطح پر تحریک انصاف کی تنظیم متحرک نہیں، بہت کم لوگ لے جا سکیں گے۔ گوجرانوالہ سے ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے توصرف ایک ہزار لوگوں کے جانے کی پیش گوئی کی۔ نقشہ کچھ یوں بن رہا تھا کہ دس سے پندرہ ہزار تک لوگ بمشکل اکٹھے ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف والے مجبوری کے عالم میں اپنی گاڑیاں پھیلا کر جگہ کور کرنے کی کوشش کریں گے، مگر ٹی وی کے کیمروں کے آگے یہ کہاں چھپ سکے گا۔
جمعہ کی شام مگر یکسر مختلف منظرنامہ دکھا رہی تھی۔ لوگوں کے پرجوش قافلے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے کہ پورا نظام مفلوج ہوگیا۔ موٹر وے کئی گھنٹوں تک بلاک رہی، جلسہ گاہ سے میلوں دور تک لوگ موجود تھے۔ انتظامیہ کا اندازہ تھا کہ اڈہ پلاٹ کا میدان بھرنے کے لیے دو لاکھ لوگ چاہییں۔ اسی لیے رانا ثنا اللہ نے بار بار دو لاکھ لوگ لانے کا مطالبہ کیا، انہیں یقین تھا کہ اس سے چار گنا کم لوگ بھی شریک نہیں ہوپائیں گے۔ عمران نے مگر ایک اور معجزہ تخلیق کر ڈالا۔ مجھے حیرت ہے کہ برادرم حفیظ اللہ نیازی نے جیو پر کہا کہ اڈہ پلاٹ پر پندرہ ہزار لوگ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ وہ اس تعداد کو پندرہ سے ضرب دینا بھول گئے تھے۔ عمران خان نے نہ صرف اڈہ پلاٹ بھر دیا بلکہ اس کے بہت باہر تک لوگ جمع تھے۔ میلوں تک پھیلا یہ ہجوم کم سے کم دس لاکھ تو نہیں تھا، جیسا کہ سٹیج سے دعویٰ کیا گیا، یہ توبچگانہ بات تھی۔ یہ جلسہ مگر ڈھائی سے تین لاکھ تک یقینا تھا۔ 30 ستمبر کی حبس آلود شام میں اتنے لوگ جمع کرنا دراصل چھ سات لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کے برابر تھے۔ عمران خان نے ایک تاریخی جلسہ کر ڈالا۔ ایک اور تاریخی جلسہ۔ مجھے یاد ہے کہ30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان کے جلسہ سے پہلے کسی کو امید نہیں تھی کہ اتنا بڑا جلسہ ہوجائے گا۔ ایک دن پہلے حفیظ اللہ نیازی جو ان دنوں عمران کے دست راست تھے، وہ ہماری ہفتہ وار نشست میں آئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے اندر یہ سوچ تھی کہ موچی دروازہ کا گراﺅنڈ نہ لے کر ہم نے غلطی کی، جسے پندرہ بیس ہزار سے بھی بھرا جا سکتا تھا، جبکہ مینار پاکستان کے گراﺅنڈ کو بھرنے کےلیے لاکھ دو لاکھ لوگ چاہییں۔ بعد میں سب حیرت زدہ رہ گئے۔ آج رائے ونڈ کے اس جلسے نے بھی بہت سوں کو حیران کیا ہوگا۔
جلسہ بہت بڑا، پرجوش اور نہایت کامیاب تھا۔ عمران کی تقریر بھی بہت عمدہ، موثر اور فوکسڈ تھی۔ اس کے تین چار حصے تھے۔ پہلی بار اس نے عام آدمی کو پاناما لیکس والا پورا ایشو سمجھانے کی کوشش کی۔ سکرین پر ویڈیوز اور دستاویزات کے ذریعے عمران نے پہلی بار نہایت مدلل انداز میں اپنا پانامہ والا کیس پیش کیا اور بڑی حد تک عام آدمی کو سمجھانے میں وہ کامیاب رہے۔ اس حصے کے انہیں دس میں سے دس پوائنٹ دیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ نواز شریف صاحب پر خوب گرجے، برسے اور اپنے مخصوص انداز میں سخت ، تند وتیز حملے کیے۔ عمران خان کے بعض فقرے زیادہ سخت تھے، خواجہ آصف کے خلاف شعلہ بیانی غیر ضروری تھی، وزیراعظم پر کچھ سخت فقرے نرم ہوسکتے تھے، مگر یہ بہرحال عمران خان کا سٹائل ہے، اسے پسند کریں یا نہ کریں، وہ اپنے مخصوص انداز ہی میں بولتے ہیں۔ تقریر کا تیسرا حصہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف تھا، وہ بھی ان کے مزاج اور توقعات کے عین مطابق تھا۔ کشمیریوں کی بھرپور حمایت کرنا مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کو یقیناً اچھا لگے گا۔ کرپٹ عناصر کے خلاف عمران خان کے حملے، اداروں کو مضبوط کرنے کی بات، نظام میں تبدیلی اور استحصالی قوتوں کو قانون کی گرفت میں لے آنے کی بات بھی مدلل اور موثر تھیں۔ عمران کی تقریر اگرچہ طویل تھی، مگر لگتا تھا کہ وہ اس بار خاصی تیاری کر کے آئے ہیں، ان کے پاس تمام نکات موجود تھے، جنہیں عمدگی سے بیان کرنے ، اور اپنا کیس اچھے طریقے سے لڑنے میں کامیاب رہے۔ میرا نو سالہ بیٹا معز میرے پاس بیٹھا یہ تقریر نہایت دلچسپی سے سن رہا تھا۔ اس کا تایا عمران خان کا سخت مخالف ہے۔ معز کو کچھ عرصے سے یہ شکوہ تھا کہ عمران خان جسے وہ عمان خان کہتا ہے، خان آخر ہر وقت دھرنے کی بات کیوں کرتا ہے۔ آج عمران کی تقریر نے پہلی بار معز کو متاثر کیا، میں نے اسے عمران خان کی باتوں پر سر ہلاتے دیکھا، بعد میں اس کا تبصرہ تھا کہ آج سمجھ آئی کہ عمران خان کیا چاہتا ہے۔ یہ واقعہ محاورتاً یا زیب داستان کے لیے بیان نہیں کیا، ایسے ہی پیش آیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا ذہن کس حد تک صاف ہو گیا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کے لیے ظاہر ہے یہ تقریر اتنی ہی تکلیف دہ رہی ہوگی۔
اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اس سے کیا حاصل کیا؟ میرا خیال ہے کہ اس نے سب کچھ پا لیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کمال مہارت سے اور پیپلز پارٹی کے تعاون کے بعد پانامہ لیکس والا معاملہ خاصی حد تک لٹکانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ ایشو ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ رائیونڈ جلسے سے عمران خان نے دوبارہ پانامہ ایشو زندہ کرکے حکومت کو چار ماہ پرانی پوزیشن میں کھڑا کر دیا۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر بن رہا تھا کہ یہ کمزور ہوگئی اور اب اسے زندہ رہنے کے لیے متحدہ اپوزیشن کے سہارے کی ضرورت پڑے گی۔ عمران خان نے یہ تاثر مٹا دیا اور کسی کی مدد کے بغیر اتنا بڑا جلسہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کا واحد کراﺅڈ پلر ہے، رائیونڈ میں عمران کے علاوہ ملک کا کوئی بھی اور سیاستدان اس قدر بڑا شو نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف کا کارکن بھی چارج ہوگیا اور پارٹی دوبارہ خوداعتمادی سے سرشار ہوگئی۔ عوامی تحریک اب ساتھ شامل نہ ہونے پر پچھتا رہی ہوگی، پیپلزپارٹی کو یا عمران خان کے ساتھ ملنا پڑے گا، یا پھر کوئی نئی حکمت عملی بنانی ہوگی، ورنہ پنجاب سے ان کا صفایا تو ہوگیا، ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ جماعت اسلامی کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ عمران خان کو جماعت کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے، ماضی میں بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے، جن سے عدم اعتماد کی فضا قائم ہوئی۔ عمران کو جماعت سے رابطہ کرنا چاہے، وہ خود اگر سراج الحق صاحب سے ملیں تو جماعت ساتھ چل سکتی ہے، ایجنڈا دونوں کا ایک ہے، دونوں فطری اتحادی ہیں۔ آج شام فیصل آباد میں پولیس نے جماعت کے ساتھ زیادتی کی۔ سراج الحق کے ساتھ سرکاری گارڈ ہوتا ہے، جو کے پی کے حکومت نے دے رکھا ہے، عین جلسے کے وسط میں پولیس کا سٹیج پر چڑھ کر گارڈ کا لائسنس چیک کرنا احمقانہ قدم تھا، جس سے بدمزگی ہوئی۔ پی ٹی آئی اور جماعت میں کئی مشترک نکات ہیں، انہیں سامنے رکھ کر چلنا چاہیے۔
عمران خان کا محرم کے بعد اسلام آباد جانے کا اعلان اور حکومت نہ چلنے دینے کا عزم بہت بولڈ قدم ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران اس کے لیے کیا حکمت عملی بناتے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے یہ اعلان حکومت پر دباو ڈالنے کےلیے کیا ہو تاکہ جوڈیشل کمیشن بن سکے۔ ابھی اس میں ایک ماہ باقی ہے، کیا معلوم اس وقت سرحدوں پر صورتحال کیا ہو اور تحریک انصاف کو انتہائی اقدام تک نہ جانے پڑے۔ سردست تویہ امید کرنی چاہیے کہ سیاستدان حالات قابو سے باہر نہ جانے دیں۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پانامہ والے معاملے کو لٹکانے کے بجائے اپنے وعدے پر عمل کرے۔ یوں سیاسی عمل چلتا رہے گا، ٹکراﺅ کا شکار نہیں ہو پائے گا۔
تبصرہ لکھیے