مقبوضہ جموں کشمیر میں اڑی کے مقام پر واقع بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر مسلح افراد کے حملہ میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں سب سے زیادہ دہرائی جانے والی ترکیب تھی ۔۔۔ ”سرجیکل اسٹرئک“۔
حملہ کے اگلے روز ہی بھارتی میڈیا نے یہ خبر چلا دی کہ بھارت نے بالآخر پاکستان کو سبق سکھانے کے فیصلہ پر عمل درآمد کر دیا اور ایک سرجیکل اسٹرائک میں 10 دہشت گردوں کو مار گرایا۔ اس خبر کا چلنا تھا کہ بھارت میں ہر طرف داد و تحسین کے غلغلے بلند ہونے لگے، کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میڈیا اب جنگی رہنمائی کا فریضہ اپنے ذمہ لیے ہوئی تھا، بحث جاری تھی کہ یہیں رک جایا جائے یا پھر سزا کے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
کہاں تو اس قدر شور اور پھر اچانک ایک گہرا سکوت طاری ہو گیا۔
بھارتی فوج نے اس نوع کے کسی بھی واقعہ کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ اب بغلیں بجانے کے بجائے بغلیں جھانکنے کا سفر شروع ہوا۔ ہر کوئی یہی پوچھتا پھر رہا تھا کہ آخر یہ خبر جاری کہاں سے ہوئی، اس کی تصدیق کیوں نہیں کی گئی، اس کا سورس کیا یا کون تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔
پھر ہم نے دیکھا کہ بات کو گھمانے کی کوشش شروع ہوئی اور غربت اور جہالت کے خلاف جنگ کا ڈول ڈالا گیا، پاکستان کو یہ یاد دلایا گیا کہ اس سے تو اس کے اپنے سکہ بند علاقے نہیں سنبھالے جاتے تو وہ کشمیر کے چکر میں کیوں پڑ رہا ہے۔ پھر سفارتی تنہائی کی بات کی گئی۔ اس دوران بھارت کے دو ”حلیف“ ممالک ، روس اور ایران کی افواج پاکستان کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے پاکستان کی سرزمین پر آ پہنچیں اور پہلے سے طے شدہ ان دوروں کی منسوخی سے انکار کر دیا تو پھر بھارت نے ”کاسہ لیس سفارت کاری“ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر آئندہ ماہ اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کا بائکاٹ کر دیا۔
اس سب کے باوجود سرجیکل سٹرائیک کا جن تھا کہ بوتل میں جانے کو تیار نہ تھا۔ پھر اچانک آج ہم نے بھارتی میڈیا پر سنا کہ وزارت خارجہ و دفاع مل کر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہیں۔ اس کانفرنس کے دوران بھارتی فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے یہ اعلان کیا کہ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ سرجیکل سٹرائیک کی ہے، جس میں دہشت گردوں کو لانچ کرنے کے اڈے تباہ کر دیےگئے اور بڑا جانی نقصان ہوا۔ بھارتی ڈائریکٹر جنرل نے اس موقع پر تین باتیں نہایت اہم کہیں:
1۔ یہ آپریشن لائن آف کنٹرل کے ساتھ ساتھ ہوا۔
2۔ آئندہ ایسا آپریشن کرنے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں، نہ ہی لائن آف کنٹول کے پار ایسا آپریشن کرنے کا پلان ہے۔
3۔ پاکستانی ڈی جی ایم او کو اس بارے پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔
آپ مندرجہ بالا بیان میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک حصہ بھارتی میڈیا کے لیے ہے کہ سرجیکل آپریشن کا نام سنو اور آگے خیال کے گھوڑے کو ایڑ لگا دو، نیز بھارتی عوام کو اس گھوڑے پر بٹھانا مت بھولنا۔ بیان کا دوسرا حصہ بین الاقوامی برادری کے لیے ہے کہ ہم نے کچھ بھی ”انقلابی“ نہیں کیا اور رولز آف انگیجمنٹ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
جیسا کہ توقع تھی بھارتی میڈیا نے کان چیک کرنا وقت کا ضیاع خیال کیا اور بس اس طرف کو دوڑ لگا دی جدھر فوج نے کہا تھا۔ یہ بھی کہا کہ نقصان کنٹرول لائن کے پار ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ Hot Pursuit ہی ہے، یعنی دشمن کے علاقہ میں کاروائی ہوئی ہے۔
ہوا اصل میں یہ کہ بھارت نے ایک بار پھر کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری کر دی۔ اب یہ گولے تو کنٹرول لائن کے اِس پار ہی گرنے تھے۔ اسی کو بھارتی فوج نےکہہ دیا کہ یہ ایک سرجیکل سٹرائک ہے۔ جیسے بچوں کو سکول میں جملہ بنانے کے لیے کوئی بھی لفظ دیا جائے تو وہ ہر لفظ کا ایک ہی فقرہ بناتے ہیں۔ یہ ایک قلم ہے، یہ ایک گاڑی ہے۔ سو یہ ایک سرجیکل اسٹرائک تھی۔ بہرحال پاکستان نے بھی اس کا بھرپور جواب دیا۔ پاکستان بھارت کی طرح سول آبادی کو ٹارگٹ کر کے سورما نہیں بن سکتا۔ کنٹرول لائن کے پار بھی ہمارے ہی لوگ ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ امر بھی ایک ”لائن آف کنٹرول“ ہے، بمباری اور لاشین گرانے کا یہ فرق ہی دراصل مسئلہ کشمیر کا اصل رخ بھی متعین کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے کشمیر محض زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ کشمیر تو کشمیریوں کے ساتھ ہی کشمیر ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے بھی اس قسم کے کسی بھی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔ یعنی اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو یونہی ختم نہ ہو جاتی۔ اس کا ایک بڑا جواب دیا جاتا۔
تمام صورتحال بالکل واضح ہے۔ تاہم ایک سوال جواب طلب ہے اور اس کا جواب پاکستانی فوج نے دینا ہے۔ کیا بھارتی ڈی جی ایم او نے پاکستانی ڈی جی ایم او سے بات کی؟ اگر ہاں، تو وہ کیا بات تھی؟ اگر یہ بھارتی فوج کی غلط بیانی ہے تو اس پر بہت بڑا طوفان اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کال کی تصدیق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ زمین پر بھارتی دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی. مگر اس پر زیادہ بہتر انداز میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی ضرورت ہے.
تبصرہ لکھیے