نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ 15 سال سے جاری ہے۔ بش انتظامیہ نے دہشت گردی کا مرکز افغانستان کو قرار دے کر جس بربریت کا آغاز کیا، وہ آج تک جاری ہونے کے باوجود نہ تو افغانستان سے طالبان اور القاعدہ کو ختم کیا جاسکا اور نہ ہی دہشت گردی سے دُنیا کو محفوظ بنایا جاسکا ہے۔
پاکستان کے حکمران ایک فون کال پر امریکہ بہادر کے قدموں کی خاک ہوئے، دلیل یہ تھی کہ اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو بھارت موقع سے فائدہ اٹھائے گا، پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ نے پاکستان مخالف لوگوں کو چن چن نئی افغان حکومت میں شامل کیا۔ کوئٹہ میں 30 سالوں تک ایرانی اسمگل شدہ تیل بیچنے والا حامد کرزئی افغان صدر بنا اور اس کے منہ میں بھارتی ساخت کی زبان ڈال دی گئی۔
20 سالہ افغان پالیسی جو ہمارے حکمرانوں نے ہی بنائی تھی پر یوٹرن لے لیا گیا، اس وقت کے افغان حکومتی اہلکاروں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کردیا۔ نہ سفارتی آداب کا خیال کیا گیا اور نہ کوئی اخلاقی حد چھوڑی گئی. اسلام آباد میں متعین افغان حکومت کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو جس حالت میں امریکی فوجی اہلکاروں کے حوالے کیا گیا، وہ جدید دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے۔ امریکی بدنام زمانہ جیل گوانتا ناموبے افغان اور عرب شہریوں سے بھر دی گئی، لاتعداد افغان شہریوں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، کابل اور قندھار کے چوکوں پر لٹکا دیا گیا، ان کی گردنیں کاٹ کر جسموں میں پٹرول بھرکر آگ لگا دی جاتی، یہ رقص ابلیس امریکی فوجیوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
روس افغان جنگ کے دوران جب روسی جہاز نیپام بم برساتے تھے تو اقوام متحدہ میں مذمتی قراردادیں منظور ہوتی تھیں اور جب امریکی بمباری شروع ہوئی اور کلسٹر بموں سے لے کر ڈیزی کٹر بموں اور مدر آف ال بمز تک افغانوں پر برسا دیے گئے مگر اقوام ِ عالم اس انسانیت کشی اور درندگی و بربریت پر آنکھیں بند کرلیتی ہے، کوئی سوال کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ امریکی حملے کے وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور طالبان کی یہ حکومت، حکومت پاکستان کی سرپرستی اور سعودی عرب کے مالی تعاون سے ہی چل رہی تھی۔ 80ء کی دہائی میں امریکہ بھی یہی چاہتا تھا کہ جنگجوؤں کو تیار کیا جائے۔ ساری دُنیا سے جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کیا گیا، چیچنیا، بوسینا، عرب ممالک، یہاں تک کہ امریکہ و مغربی دنیا کے کئی جوانوں کو اس جنگ کے لیے تربیت دی گئی۔ سعودی عرب کی معروف کاروباری شخصیت اسامہ بن لادن کو اس جنگ کا اہم رہنما بنایا گیا۔ اس طویل المدتی کھیل کا آغاز 1977ء میں امریکی صدر جمی کارٹر کے عہد سے شروع ہوا اور رونالڈ ولسن ریگن کے عہد 1981ء تا 1989ء میں اپنے عروج پر پہنچا، اس سارے کھیل کا مقصد اپنے حریف سوویت یونین کو نیچا دکھانا تھا۔
دوسری عالمی جنگ 1939ء تا 1945ء کے اختتام کے بعد دو عالمی طاقتوں امریکہ اور روس کے درمیان سردجنگ کا آغاز ہوا۔ 1945ء سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثير اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لیے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔
جب روس نے افغانستان کو ایک آسان ہدف خیال کرتے ہوئے 1977ء میں فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا تو دو سال تک افغان اپنی روایتی حریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے روسی فوجوں کے سامنے ڈٹے رہے تو امریکہ نے سوچا کہ اپنے روایتی حریف روس کو نیچا دکھانے کا سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے چنانچہ اس نے جہاد افغانستان کو اسپانسر کرنا شروع کر دیا۔ پھر دُنیا بھر سے مجاہدین بھی اکٹھے کیے گئے، اسلحے کے انبار بھی لگائے گئے، یہی افغان تھے جن کو آج دہشت گرد کہا جاتا ہے، امریکی صدر جمی کارٹر اور رونالڈ ولسن ریگن وائٹ ہاؤس میں ان ”دہشت گردوں“ کے میزبان ہوا کرتے تھے اور امریکی صدر رونالڈ ولسن ریگن کے تاریخی الفاظ ہیں کہ They are equal to our Founding Father
آج پتا نہیں یہ الفاظ کسی کو یاد بھی ہوں گے یا نہیں۔ اسی زمانے میں امریکہ نے ایک خلائی مشن بھیجا اُسے بھی افغان مجاہدین کے نام کیا گیا تھا۔
جب روسی فوج اپنے زخم چاٹتی ہوئی واپس ماسکو پہنچی تو روسی صدر میخائل گورباچوف ”ڈوما“ میں کھڑا عظیم سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان کر رہا تھا تو امریکہ بہادر افغانستان کی تعمیر نو کرنے کے بجائے فتح کے شادیانے بجاتا واشنگٹن روانہ ہوگیا۔ یہ فتح امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فتح تھی، اس نے اپنی سرزمین استعمال کیے بغیر اپنے سب سے بڑے حریف روس کو شکست سے دوچار کیا تھا، اس کی گردن اب پہلے سے بھی زیادہ اکڑ چکی تھی، امریکہ کو ان لوگوں سے غرض نہیں تھی جنہیں جہاد کے نام پر پوری دنیا سے بلا کر افغانستان میں روس کے خلاف استعمال کیا گیا تھا. اب امریکی تھنک ٹینک یہ کہہ رہے تھے کہ کمیونزم کی شکست کے بعد دُنیا کو اسلام سے خطرہ ہے اور نیویارک کے ولڈ ٹریڈ سنٹر پرحملہ کس نے کیا؟ اور کیسے کیا؟ آج تک برمودہ ٹرائی اینگل کے پراسرار سمندر کی طرح ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے۔ اس حملے کے بعد صدر بُش نے افغانستان پر حملہ کی راہ ہموار کرلی اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو بلا تفریق رنگ، نسل، فرقہ پیغام دیا کہ بتایا جائے آپ کس کے ساتھ ہیں؟ اگر آپ ہماری اس صلیبی جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں تو ٹھیک ہے، اگر غیر جانب دار رہے یا کسی بھی قسم کی مخالفت کی یا نظر آئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ دہشت گرد ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھی ہیں یا ان کے سہولت کار ہیں۔ یہ فاتح عالم افغانستان کو روندتا ہوا عراق تک جا پہنچا لیکن عالمی برادری کے ضمیر میں حیا کی ہلکی سی رمق بھی نظر نہیں آئی۔
کسی نے اس جنگ کو تہذیبوں کا ٹکراؤ قرار دیا تو کسی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا لیکن مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نکیل ڈالنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے، وہ تمام جنگجو جو کبھی ’مجاہدین‘ ہوا کرتے تھے اور جن کی زندگی کا صرف ایک مقصد ’جہاد فی سبیل اللہ‘ تھا، ان کو کہا گیا کہ ان دہشت گردوں کا نہ کوئی ملک ہے نہ کوئی مذہب! اور تاریخ ساز بمباری سے زندہ بچ جانے والوں کا پیچھا ڈرون کرتے رہے۔ پھر پتہ نہیں کہاں سے جنگجوؤں کےنئے گروپ متعارف ہونا شروع ہوگئے۔ کو ئی تحریک طالبان پاکستان کا لیب لگا کر ریاست پاکستان میں دہشت پھیلانے لگتا ہے تو کوئی تحریک طالبان افغانستان کا پرچم اُٹھا کر امریکہ کے خلاف ’جہاد‘ شروع کر دیتا ہے۔ نہ جانے کتنے گروپ ہیں جو اس وقت مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ
اب ان گروہوں کی سرپرستی کون کر رہا ہے؟
ان کو اسلحہ کون دیتا ہے؟
امریکہ اور بھارت ،افغانستان میں مورچہ زن ہیں!
را کے جاسوس بلوچستان سے پکڑے جارہے ہیں!
افغان صدر بھارت جا کر مودی کی زبان بولتا ہے!
تو بات آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے!
لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی!
بقول جنرل اسلم بیگ!
”حالیہ دور میں اُبھرنے والے حالات پاکستان کے لیے خاصے پریشان کن ہیں۔ خصوصاً جبکہ اندرون ملک دہشت گردی اورسیاسی انتشار پھیلا ہوا ہے۔ ہماری شمال مغربی سرحدوں پر جنگ کی کیفیت ہے، لیکن اس الجھے ہوئے منظر نامے میں بھی امید افزا اشارے ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم نہایت تدبر اور فہم و فراست سے فیصلے کریں اوران مواقع سے بھرپور طور پر مستفید ہوں۔ منطقی طور پر یہ بات درست ہے کہ بھارت اور امریکا کی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا واضح ہدف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرنا ہے۔ یہ بات چین کے لیے پریشان کن ضرور ہے، لیکن اس کے ردّعمل میں چین، پاکستان اور روس کے مابین عسکری و اقتصادی تعلقات میں مفاہمت کی فضا ہموار ہورہی ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کی نئی راہیں کھلیں گی۔“
لیکن اللہ کرے ہماری سیاسی قیادت ان حالات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
تبصرہ لکھیے