مختلف اشیاء کی طرح ذاتی لحاظ سے انسان بھی کئی اقسام کا واقع ہوا ہے اور پھر انسان ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے پروفیشن کی بھی مختلف اقسام موجود ہیں. اب چونکہ چور بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور چوری ان کا پروفیشن ہوتی ہے تو ظاہر ہے ان کی بھی کئی اقسام ہوں گی. ذیل میں ان کا اقسام کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پروفیشنل چور:
پروفیشنل چور کا لفظ سن کر اگر آپ کی ذہنی گاڑی رائیونڈ کی سڑک پر چل نکلی ہے تو غلط آپ بھی نہیں مگر فی الوقت میرا مقصد گلی محلوں میں چھوٹے لیول پر ہاتھ صاف کرنے والے چوروں کی نشاندہی کرنا ہے نہ کہ بڑے پیمانہ پر ملکی خزانے کو دونوں ہاتھ سے لوٹنے والے اشرافیہ کی غیبت کرنا . پروفیشنل چور وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی کا پہیہ چلتا ہی کسی نہ کسی کی گاڑی کا پہیہ چوری کر کے ہے، چوری ان کےلیے عشق اور جنون بن چکی ہوتی ہے، جب تک چوری نہ کر لیں، انہیں گرم گرم روٹی کی خالص دیسی گھی میں بنی ہوئی چوری بھی ہضم نہیں ہوتی اور ایسے چوروں کی اصلاح قدرے مشکل ہوتی ہے.
اتفاقی چور:
یہ وہ چور ہوتے ہیں جو کسی خاص ذہن اور پلاننگ کے ساتھ چوری نہیں کرتے مگر اگر راہ چلتے موقع مل جائے تو اسے ضائع بھی نہیں کرتے. مثال کے طور پر جیسے گلی میں چلتے ہوئے انہیں کسی کی کھلی بیٹھک میں یا آفس ٹیبل پر پڑا موبائل دکھائی دے اور پھر یہ آہستہ سے ماڈل چیک کرنے کے بہانے موبائل اٹھا کر رفو چکر ہو جائیں. ایسے چور چونکہ کبھی کبھار ہی اپنا فن دکھاتے ہیں، اس لیے اکثر منظر پر آنے اور بدنامی کمانے سے بچے رہتے ہیں۔
نشئ چور:
یہ لوگوں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ٹیکے لگانے والے بےچارے شریف چور ہوتے ہیں اور دراصل یہ چوری بھی اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے ہی کرتے ہیں. یہ اس قدر ایماندار ہوتے ہیں کہ ان کے ہاتھ جتنا بھی مال غنیمت لگ جائے، یہ اس میں سے اتنا ہی اٹھاتے ہیں جتنے سے ان کا اک وقت کا نشہ پورا ہو سکے۔ اور ایسے لوگ جو دنیا کمانا ہی اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہیں، ان کو چوروں سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔
غریب چور:
یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ماں کی گود سے افلاس اور بھوک کا دودھ پی کر پلتے بڑھتے ہیں. اک عرصہ تک محنت مزدوری اور حق حلال کی کمائی سے اپنے بوڑھے والدین اور بال بچوں کا پیٹ بھرنے کی ناکام کوشش کے بعد بالآخر مہنگائی سے تنگ آ کر خود کو اس ماڑ تاڑ والی راہ پر گامزن کر لیتے ہیں۔ اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسا چور آئے تو بجائے لعن طعن کرنے کے اس کی کچھ مالی امداد کر دی جائے تو بہتر ہے. قوی امید ہے کہ ایسا کرنے سے مجبوری کے سبب چوری جیسا قبیح فعل کرنے والا وہ بھٹکتا راہی ان شاءاللہ راہ راست پر آ جائے گا.
تبصرہ لکھیے